اپنی تقریر کے آغاز میں انہوں نے یہ شعر پڑھا ؎
قصے ہزار عشق کے اظہار بھی تو ہو
خبریں بہت ہیں شہر میں اخبار بھی تو ہو
اسلام آباد میں جاری ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ آج کے دور میں یہ شعر بپت سچ نظر آتا ہے،انہوں نے کہا آج کے خبرنامے میں یہ سب تقریریں نظر نہیں آئیں گی۔ انہوں نے کہا کہ علی احمد کرد کی تقریر ٹی وی پر نشر تو نہیں ہو گی پر ممکن ہے ان کے خلاف مقدمہ ہو جائے۔
سینئر صحافی حامد میر نے کہا کہ آج ہم اس لیے اکٹھے نہیں ہوئے کہ کسی ادارے کے خلاف بات کریں، مجھے لطیف آفریدی صاحب نے گائیڈ لائن دی ہے اسی میں رہ کر بات کروں گا، انہوں نے کہا کہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ آپ خاموشی اختیار کریں، ملک کے حالات کا خیال کریں، ہمارے ملک میں ایک طرف قانون ہے دوسری طرف لاقانونیت ہے۔ صحافی غیر جانبدار نہیں ہو سکتا، ملک میں جمہوریت اور قانون کی طرف جانبدار ہوں، میڈیا کی تاریخ میں کبھی کوئی غیر جانبدار نہیں تھا۔
حامد میر نے کہا کہ اب تو میں بذات خود ایک مثال بن چکا ہوں، مجھ پر جو تین ہفتے سے پابندی لگی ہے، جہاں جاتا ہوں لوگ پوچھتے ہیں کی ہویا؟ حامد میر۔ لوگوں کو کہتا ہوں اسد طور پر حملہ ہوا وہاں تقریر کی، لوگ کہتے ہیں تقریر پریس کلب کے باہر کی تو چینل میں آپ پر پابندی کیوں لگی؟ یہ لاقانونییت ہے کہ آپ نے کسی تحریری عدالتی حکم کے بغیر پابندی لگا دی، انہوں نے کہا حامد میر سنسر شپ کی چلتی پھرتی مثال بن چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کے دور میں مجھ پر ٹی وی میں پابندی لگی میں تب اخبار میں لکھتا تھا، عمران خان کے دور میں مجھ پر ٹی وی کے ساتھ اخبار میں لکھنے پر بھی پابندی ہے، میری جس تقریر پر مجھ پر پابندی لگی تو ساتھیوں نے کہا کہ آپ کا لہجہ بہت تلخ تھا، ضیاالحق کے کوڑے کھانے والے ناصر زیدی نے جب کہا کہ لہجے کی تلخی پر معافی مانگ لو تو میں نے مانگ لی، مجھے کوئی شوق نہیں ہے کہ آپ مجھے چند ماہ بعد جیو پر بحال کر دیں اور دوبارہ وہی سب کرنا شروع کر دوں۔
حامد میر نے کہا کہ میں نے ان 15 دنوں میں بہت کچھ سیکھا ہے، میں سالوں کی پابندی برداشت کرنے کو بھی تیار ہوں،جدوجہد کا کوئی فائدہ ہونا چاہئے،
ہم قائد اعظم کے طریقے پر کر قانون کی بالادستی کر سکتے ہیں۔