دنیا بھر میں دستور کا مقام اور آئین کی کیا اہمیت ہے، آئیے اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج کی مہذب دنیا میں اسے ایک اہم دستاویز مانا جاتا ہے۔ یہ کائنات کے اس سیارے یعنی زمین پر قائم ریاستوں کے لئے ایک اہم ترین قانون ہے۔ یہ دستور ہی وہ قانونی دستاویز ہے جو حکومتوں اور اس کے شہریوں کے ساتھ رویوں اور تعلقات کا تعین کرتا ہے۔ اس میں ایسے اصول اور رہنما خطوط مرتب کیے جاتے ہیں جو ایک معاشرے میں رہنے والے مختلف نسلی اور مذہبی گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے ایک ساتھ ہم آہنگی سے رہنے کے لئے لازم و ملزوم ہوتی ہیں۔
ہم معصوم پاکستانیوں کو تو آئین کے تقاضوں اور بنیادی قواعد کا شاید علم ہی نہیں ہے۔ یاد رہے کہ اگر آپ ایک بنانا ریپبلک نہیں ہیں تو آئین ہی جمہوریت کو بنیادی اصولِ رہنمائی فراہم کرتا ہے جس کے گرد حکومت کا ڈھانچہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ آئین حکومت کو اختیار صرف اس بات کا دیتا ہے کہ وہ آئین کی رو سے اپنے شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرے، اور یہی اُصول ایک شہری کےدوسرے شہری پر حق کی وضاحت بھی کرتا ہے۔ ایک اور اہم اور بنیادی ضابطہ کسی بھی ملک کا دستور یہ طے کرتا ہے کہ اس ملک کے رہنے والے کی شہریت کے حصول اور اخراج کا کیا طریقہ کار ہو گا۔ اسی لئے آئین کو کسی بھی ملک کے سب سے اولین اور اہم ترین قانون کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔
اب اگر ایک لمحے کو تصور کر لیں کہ کسی ملک کا کوئی آئین نہیں ہے تو کیا ہوگا، وہ ملک کیسے چلے گا اور کس طرح قانون کی عمل داری ممکن ہو پائے گی؟ آئین کے بغیر تو مہذب معاشرے برقرار نہیں رہ پائیں گے اور جانوروں کی طرح جنگل کا قانون رائج ہو جائے گا، جہاں قواعد و ضوابط کا فقدان ہوگا اور وہاں رہنے والوں کے لئے انصاف نام کی کسی شے کا وجود ہی نہیں ہوگا، جس کی عدم موجودگی میں سوائے انتشار اور فساد کے کچھ باقی نہیں بچے گا۔ طاقت ور کمزور پر حاوی ہوگا اور کمزور ایک غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائے گا۔
اب یہ بات تو طے ہے کہ پاکستان چونکہ ایک جمہوریہ ہے اور اس میں ایک پارلیمانی نظام رائج ہے، اسی لئے یہاں کارِ حکومت ایک آئینی ریاست کے طور پر رائج دستور کے مطابق چلایا جاتا ہے۔ یا یوں کہیے کہ چلایا جانا چاہیے۔ صد افسوس کے ایسا کچھ عرصہ چلتا ہے اور پھر کچھ عرصہ نہیں چل پاتا۔ گذشتہ کچھ عرصہ سے آئین کو معطل نہیں کیا گیا ہے اور نظامِ حکومت ایک دستور کے تحت ہی چلایا جا رہا ہے۔ 280 کے قریب آرٹیکلز اور سات مرکزی حصوں پر مبنی یہ آئین بھی دیگر جمہوری ممالک کے آئین کی طرح اپنے شہریوں کو بنیادی حقوق کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔
یہ امر ہمیں اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ یہ آئین ہی ہے جو طے کرتا ہے کہ وفاق اور صوبوں کا قیام کیسے عمل میں لایا جانا چاہیے اور ان کے آپسی تعلقات کیسے ہوں گے، ملکی خزانے کے معاملات کیسے چلائے جائیں گے، شہریوں کو انصاف کی فراہم کے لئے عدلیہ کا کیا کردار ہوگا اور ملک کے منصفانہ انتخابات کا طریقہ کار کیا ہوگا۔ اس کے علاوہ بہت سی قانون سازی گاہے گاہے کی جاتی ہے جس میں سے کبھی کوئی فرمائشی، کبھی نظریۂ ضرورت کے تحت اور کبھی کسی آمر کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے بھی ہو جاتی ہے۔
اب تک تو آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے لئے آئین کا ہونا کتنا ضروری ہے، اور یہ بھی کہ یہی وہ واحد دستاویز ہے جو ملک کی سلامتی و بقا کے لئے ناگزیر ہے۔ یعنی اگر آپ کو اپنے ملک سے محبت ہے تو اس کو چلانے والے قانون سے بھی عقیدت رکھنا ہوگی۔ سب سے اہم بات جو سمجھنے کی ہے کہ آئین ایک ایسا حتمی قانون ہوتا ہے جو کہ ہر شہری پر مساوی لاگو ہوتا ہے، اس میں چاہے کوئی عام غریب کسان ہو یا کسی ادارے کا سربراہ یا کسی سیاسی جماعت کا رہنما۔
ہم نے شاید آئین کی اہم شقوں، غداری، بلاسفیمی، اظہار آزادی کوصرف اپنی سہولت کے لئے استعمال کرنا اپنا وطیرہ بنا لیا ہے اور باقی کے آئین کو ردی کی ٹوکری کی زینت بنا رکھا ہے۔ اس لمبی چوڑی تمہید کی ضرورت کچھ یوں پیش آئی کہ گذشتہ دن اپنے ایک ٹی وی انٹرویو کے سلسلے میں میرے مہمان معروف ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ ایڈوکیٹ شفیق احمد تھے۔ یہ صاحب اپنی حق گوئی کی بارہا قیمت ادا کر چکے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں۔ اس پروگرام میں انہوں نے اپنی جبری گمشدگی کی پوری کتھا سنائی، جس میں کہ روایتی طور پر کردار، مقام اور سکرپٹ سب وہی سب کچھ تھا جو اس سے پہلے متعدد صحافی برادری کے لوگوں اور سماجی ایکٹوسٹس کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔
اس انٹرویو میں ایک چونکا دینے والی بات یہ سامنے ضرور آئی کہ 16 روزہ قید کے دوران جب اپنے دفاع میں انہوں نے اپنے اغوا کاروں سے کہا کہ ان کا کوئی قصور نہیں وہ تو صرف آئین کے دائرے میں رہ کر بات کر رہے ہیں تو مارنے والے سینیئر اہلکار نے آئین کو ایک موٹی سی گالی (غالباً ماں کی) دے کر کہا کہ ’’تم کون ہوتے ہو آئین کی بات کرنے والے؟‘‘ یعنی کے وہ خود ہی ملک کا اصل قانون ہیں۔ واضح رہے کہ یہ اہلکار، ان کے اعلیٰ افسران اور پورا اِدارہ سب اسی آئینی حلف کے دائرہ کار میں کام کرتے ہیں، مراعات لیتے ہیں، اور بڑے بڑے رٹائرمنٹ پیکجز سے بھی مستفید ہوتے ہیں۔ بس جہاں کمزور کی آواز دبانے کا معاملہ ہو تو ملک کا دستور انہیں ایک آوارہ بدچلن طوائف دکھائی دینے لگتا ہے اور اپنے استعمال کے لئے وہ اس کی توہین کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔
جس طرح ضیا الحق نے توہینِ رسالتﷺ کے قانون کی آڑ میں غریب و لاچار مسیحی اور ہندوؤں کو بلاسفیمی کی تلوار سے ذبح کیا وہ میری نظر میں آئینِ پاکستان کی سب سے بڑی بلاسفیمی ہے۔
اس ملک کے دستور کو پسِ پشت رکھ کر ملک کی اقلیتیں جنہیں دستور تحفظ فراہم کرتا ہے ان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک روا رکھا گیا ہے، پاکستان کی مرکزی دھارے کی سیاست کرنے والے رہنماوں کو مائنس مائنس کھیل کر غدار قرار دیا گیا ہے اور’’عظیم تر قومی مفاد‘‘ کی آڑ میں سرکار کے نوکروں نے اپنی ملازمتوں میں توسیع کروا کر اپنے ہی آئین کی روح کو مجروح کر دیا۔
وقت آ گیا ہے کہ محب وطن اور غداری کی اس خود ساختہ تفریق کو اب ختم ہونا چاہیے، وگرنہ وقت کا دھارا ایسا سبق سکھائے گا کہ پچھلے سبق بھی بھلا دے گا۔ تاریخ میں ایسی اقوام کا پھر نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا۔
آج ملک بھر کے عوام سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ سات دہائیوں سے پاکستان کے مقدس آئین کی توہین کرنے والے ان ملزمان کو کو سزا کب ملے گی؟