غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق اگست میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے طالبان نے افغان خواتین پر سخت پابندیاں عائد کیں اور امریکا کے ملک پر حملہ کرنے اور طالبان کی گزشتہ حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد دو دہائیوں کے دوران حاصل ہونے والے معمولی فوائد واپس لے لیے ہیں۔
مئی میں طالبان کے سربراہ اور ملک کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخونزادہ نے ایک فتویٰ جاری کیا تھا کہ خواتین کو عمومی طور پر گھروں میں رہنا چاہیے۔
خواتین کو حکم دیا گیا تھا کہ اگر انہیں باہر جانے کی ضرورت پڑے تو اپنے چہروں سمیت خود کو مکمل طور پر ڈھانپیں۔
رواں ہفتے طالبان کی اسلام کی سخت تشریض کو نافذ کرنے والی وزارت برائے ’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘ نے قندھار شہر میں برقعوں کی تصاویر والے پوسٹر لگائے۔
پوسٹرز پر تحریر ہے کہ ’مسلمان خواتین جو حجاب نہیں پہنتیں وہ جانوروں کی طرح نظر آنے کی کوشش کر رہی ہیں‘۔
ایسے پوسٹرز بہت سے کیفے اور دکانوں کے ساتھ ساتھ طالبان کے گڑھ قندھار میں اشتہاری ہورڈنگز پر بھی چسپاں کیے گئے ہیں۔
پوسٹرز کے مطابق مختصر، تنگ اور جسم جھلکانے والا لباس پہننا ہیبت اللہ اخندزادہ کے فتوے کے بھی خلاف ہے۔
کابل میں وزارت کے ترجمان سے کوئی رابطہ نہیں ہو سکا لیکن ایک اعلیٰ مقامی عہدیدار نے تصدیق کی کہ پوسٹرز لگائے گئے ہیں۔
قندھار میں وزارت کے سربراہ عبدالرحمٰن طیبی نے کہا کہ ہم نے یہ پوسٹرز لگائے ہیں اور وہ خواتین جن کے چہرے عوامی مقامات پر ڈھانپے نہیں ہوتے، ہم ان کے اہل خانہ کو مطلع کریں گے اور فتوے کے مطابق اقدامات اٹھائیں گے۔
ہیبت اللہ اخوندزادہ کے فتوے میں متعلقہ حکام کو حکم دیا گیا ہے کہ جو خواتین ان احکامات کی تعمیل نہیں کرتی ان کے مرد رشتہ داروں کو سرکاری ملازمت سے معطل کردیں۔
طالبان کے پہلے دور اقتدار میں خواتین کے لیے برقعہ پہننا لازم تھا جو کابل سے باہر اب بھی عام ہے۔