پی ٹی آئی کی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ضمنی انتخابات کیلئے جن امیدواروں کو ٹکٹیں جاری کی گئی ہیں۔ ان میں بڑی تعداد ’الیکٹیبلز‘ کی ہی ہے۔ اگرچہ عمران خان بیانات کی حد تک دعویٰ کر چکے ہیں کہ وہ آئندہ کسی لوٹے یا الیکٹبلز کو اپنی پارٹی کا ٹکٹ جاری نہیں کریں گے۔
https://twitter.com/PTIPoliticsss/status/1536306473382432769?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1536306473382432769%7Ctwgr%5E%7Ctwcon%5Es1_c10&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.bbc.com%2Furdu%2Fpakistan-61820104
آئیے پی ٹی آئی کے ان "مستحق نظریاتی" امیدواروں پر ایک نظر ڈالتے ہیں، جن کو عمران خان کی جانب سے ٹکٹ جاری کئے گئے ہیں۔
پی پی 7 کہوٹہ
پی پی 7 کہوٹہ سے پی ٹی آئی کے امیدوار کرنل شبیر اعوان ہیں۔ وہ 2002ء میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکن صوبائی اسمبلی بنے اور 2013ء میں بھی پی پی پی کے ہی امیدوار تھے۔ ٹکٹ کے معاملے پر ان کا ایم این اے صداقت عباسی سے جھگڑا ہے۔
پی پی 83 خوشاب
پی پی 83 خوشاب سے پی ٹی آئی کے امیدوار حسن اسلم اعوان ہیں۔ وہ پی ٹی آئی کے ایم این اے عمر اسلم کے بھائی ہیں۔ عمر اسلم خود پی ٹی آئی میں شامل ہونے سے قبل مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ ن جیسی مختلف پارٹیاں بدل چکے ہیں۔
پی پی 90 بھکر
پی پی 90 بھکر کا ٹکٹ عرفان اللہ نیازی کو دیا گیا ہے، جو چند ہفتے قبل مسلم لیگ ن بھکر کے جنرل سیکرٹری تھے۔ ن لیگ کے سابق ایم پی اے انعام اللہ اور نجیب اللہ نیازی کے بھائی ہیں۔
پی پی 97
پی پی 97 سے پی ٹی آئی کے امیدوار علی افضل ساہی کا تعلق چک جھمرہ کے ایک مشہور سیاسی گھرانے سے ہے۔ ان کے والد افضل ساہی سپیکر تھے۔ ان کے چچا اور کزن ایم این اے تھے۔ پورا خاندان مسلم لیگ (ن) کا حصہ تھا اور صرف 2018ء میں اپنا سیاسی رخ بدلا۔
پی پی 125
پی پی 125 سے میاں اعظم چیلہ پرانے الیکٹ ایبل ہیں جو 1985ء سے سیاست میں سرگرم ہیں۔ انہوں نے پی پی پی، مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق، آئی جے آئی اور اب پی ٹی آئی سمیت تقریباً تمام جماعتوں میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ ان جاگیردارانہ پس منظر ہے۔
پی پی 127 جھنگ
پی پی 127 جھنگ سے الیکشن لڑنے والے امیدوار مہر نواز بھروانہ جھنگ سے ایک اور الیکٹ ایبل ہیں۔ بھروانہ جھنگ کا ایک بہت مشہور خاندان ہے جس نے مختلف سیاسی رخ بدلے اور 2018ء میں جہانگیر ترین کی کوششوں سے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی۔
پی پی 140 شیخوپورہ
پی پی 140 شیخوپورہ سے امیدوار خرم ورک ہیں۔ وہ قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کے امیدوار سعید ورک کے کزن ہیں جو خود 2002ء سے الیکشن لڑ رہے ہیں اور مختلف سیاسی جماعتوں کا حصہ رہے ہیں۔ خاندانی سیاست اور نظریے کی یہاں بھی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
پی پی 158 لاہور
پی پی 158 لاہور سے میاں اکرم عثمان، میاں محمود الرشید کے داماد ہیں۔ ان کے والد میاں عثمان بھی اچھرہ سے ایم این اے تھے۔ ہندوؤں کے ساتھ امتیازی سلوک پر ان کی پارٹی کی رکنیت 2020ء میں معطل کر دی گئی تھی۔
پی پی 167 لاہور
صوبائی اسمبلی کی نشست کے لئے پی پی 167 لاہور کا وہ حلقہ ہے جہاں سے تحریکِ انصاف کے سابق رکن اسمبلی نذیر چوہان 2018 کے انتخابات میں ایک سخت مقابلے کے بعد کامیاب ہوئے تھے۔ انھوں نے 40 ہزار سے زائد جبکہ ان کے حریف مسلم لیگ (ن) کے میاں محمد سلیم نے 38 ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔
ضمنی انتخاب کے لئے پی ٹی آئی نے اس حلقے میں پہلے عاطف چوہدری کو ٹکٹ دینے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم فیصلے میں تبدیلی کرتے ہوئے ان سے ٹکٹ واپس لے کر شبیر احمد نامی ایک رہنما کو جاری کر دیا گیا ہے۔ شبیر احمد کا خاندان پی ٹی آئی لاہور میں تنظیمی سطح پر متحرک رہا ہے۔
https://twitter.com/AtifChaudhryPti/status/1537142650947657730?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1537142650947657730%7Ctwgr%5E%7Ctwcon%5Es1_c10&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.bbc.com%2Furdu%2Fpakistan-61820104
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ میڈیا میں خبریں زیر گردش تھیں کہ عاطف چوہدری پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اعجاز چوہدری کے صاحبزادے ہیں، تاہم ایسا نہیں ہے۔ اگرچہ اعجاز چوہدری کے بیٹے نے بھی ٹکٹ کیلئے اپلائی کیا تھا لیکن ان کی جگہ پی ٹی آئی کے ایک اور امیدوار کے بھائی کو یہ ٹکٹ جاری کر دیا گیا۔
پی پی 202 چیچہ وطنی
پی پی 202 چیچہ وطنی سے ٹکٹ میجر سرور کو دیا گیا ہے۔ میجر سرور کم از کم 2002 سے سیاست میں سرگرم ہیں اور مسلم لیگ (ق) اور پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ چکے ہیں۔
پی پی 217 ملتان
پی ٹی آئی نے ملتان کی اس صوبائی اسمبلی کی نشست کے لئے زین قریشی کو ٹکٹ دیا ہے۔ وہ تحریک انصاف کے نائب صدر شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے ہیں۔ 2018 میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔
2013 کے انتخابات سے قبل پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے سے پہلے شاہ محمود قریشی ایک طویل عرصے سے پاکستان پیپلز پارٹی کا حصہ تھے۔
پی پی 224 لودھراں
پی پی 224 لودھراں کا ٹکٹ اقبال شاہ کے بیٹے عامر اقبال شاہ کو دیا گیا ہے جنہوں نے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر علی ترین کو شکست دی تھی۔ اس حوالے سے مزے کی بات یہ ہے کہ عامر اقبال شاہ 2 ہفتے قبل مسلم لیگ ن میں تھے۔
پی پی 228 لودھراں
پی پی 228 لودھراں سے امیدوار عزت جاوید خان ہیں جو 2008ء میں پی پی پی کے امیدوار تھے اور اس سے پہلے مسلم لیگ (ق) میں تھے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے جہانگیر ترین کے ساتھ پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔
پی پی 272
پی پی 272 سے جتوئی خاندان کے سپوت معظم جتوئی امیدوار ہیں جو پیپلز پارٹی کے سابق وفاقی وزیر رہ چکے ہیں۔ ان کا پورا خاندان سیاست میں ہے اور ان کے چچا قیوم جتوئی بھی ایم این اے تھے۔ یہ ان کا اپنا حلقہ نہیں ہے، پھر بھی وہ یہاں سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
پی پی 273
پی پی 273 سے امیدوار یاسر جتوئی مظفر گڑھ کے اسی جتوئی خاندان سے ہیں اور اس سے پہلے مسلم لیگ ق کے ایم پی اے تھے۔ وہ معظم جتوئی کے کزن ہیں۔ ان کے کزن داؤد جتوئی 2018 میں پی پی پی کے امیدوار تھے، اور ان کے چچا پی پی پی کے ایم این اے تھے۔
پی پی 282
پی پی 282 سے قیصر عباس مگسی امیدوار ہیں۔ مگسی اسی نشست سے 2008 سے 2018 تک مسلم لیگ ن کے ایم پی اے رہے۔ انہوں نے 2018ء کے الیکشن سے قبل پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی۔ ان کا تعلق بھی لیہ کے مشہور جاگیردار خاندان سے ہے۔
پی پی 288
پی پی 288 سے سابق گورنر ذوالفقار کھوسہ کے صاحبزادے اور سابق وزیراعلیٰ دوست محمد کھوسہ کے بھائی سیف الدین کھوسہ امیدوار ہیں۔ ڈی جی خان کا کھوسہ خاندان کسی تعارف کا محتاج نہیں کیونکہ وہ فیوڈل ہیں اور پارٹیاں بدلنے کی تاریخ رکھتے ہیں۔
لہذا آپ دیکھ سکتے ہیں کہ لوٹوں اور خاندانی سیاست کے بارے میں عمران خان کی باتیں ان کی دورخی شخصیت کو ظاہر کرتی ہیں۔ دوسروں کی طرح عمران خان بھی ایک موقع پرست اور دو چہروں والے سیاستدان ہیں جو اقتدار میں رہنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی اصول نہیں ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سیاست اس طرح ہی چلتی ہے۔
نوٹ: یہ رپورٹ منہال رضا کے ٹویٹر اکائونٹ سے مرتب کی گئی ہے۔