پنجاب میں تازہ صورتحال کے بعد ایک عہدیدار نے میڈیا سے گفتگو میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ مشتبہ مریض، جو تمام ایران سے آنے والے زائرین ہیں اور جن میں خواتین بھی شامل ہیں، دراصل تفتان بارڈر کے ذریعے ایران سے پاکستان میں داخل ہوئے اور ان سب کو نزلہ، زکام اور کھانسی کی شکایت ہے۔
عہدیدار نے بتایا کہ ان سب کو دو دن قبل ڈیرہ غازی خان منتقل کیا گیا تھا جہاں انہیں قرنطینہ کی سہولت فراہم کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈیرہ غازہ خان میں انتباہ جاری کر دیا گیا ہے جبکہ مریضوں کی نقل و حرکت محدود کرنے کے لیے محکمہ صحت کی متعدد ٹیمیں روانہ ہو چکی ہیں۔
حکومتی عہدیدار نے انکشاف کیا کہ ایرانی حکام نے وائرس سے متاثرہ ان تمام مشتبہ مریضوں کو ایک ہی جگہ رکھا جو عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کردہ ہدایات کی صریحاً خلاف ورزی ہے اور اس کی وجہ سے ان کے وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔
انہوں نے کچھ مریضوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کرونا وائرس کی علامات انتہائی واضح ہونے کے باوجود ایران میں اپنے قیام کے دوران یہ لوگ مصافحہ کرتے رہے، ایک دوسرے سے گلے ملے اور حتیٰ کہ اپنے تولیے اور باورچی خانے کی اشیا کا بھی تبادلہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ 780 مشتبہ مریض پنجاب کے مختلف شہروں سے تعلق رکھتے ہیں، محکمہ صحت کے حکام نے ان میں سے 50 کے نمونے لیے ہیں اور انہیں تجزیے کے لیے اسلام آباد کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ بھیج دیا گیا ہے۔
انہوں نے ان مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹرز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان میں سے اکثر کے ٹیسٹ مثبت آنے کے قوی امکانات ہیں۔