سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی درخواستوں پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں براہ راست عدالتی کارروائی دکھانے کی درخواست مسترد کرنے کا کہہ دیا،
جسٹس فائز عیسیٰ نظرثانی کیس پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران فائز عیسیٰ نے اپنے دلائل میں کہا کہ 8 ہزار روپے پر نیب کا ملازم شہزاد اکبر عدلیہ کو لیکچر دیتا ہے، ہم احمقوں کی جنت میں نہیں رہ رہے، عدالت خود دیکھ سکتی ہے کارروائی کتنی رپورٹ ہوتی ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جواب الجواب کیلئے روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ حکومتی سوشل میڈیا بریگیڈ میرے خلاف جھوٹ بول رہی ہے،3 بار خط لکھ چکا میرا کوئی ٹوئٹر اکاؤنٹ نہیں ہے، سوشل میڈیا پر انسان اکیلا اپنا دفاع نہیں کرسکتا، صرف مجھے نہیں بلکہ پوری سپریم کورٹ کو برا بھلا کہا جارہا ہے۔
فائز عیسیٰ نے کہا کہ میرے خلاف شکایت کنندہ عبدالوحید ڈوگر نے یوٹیوب پر اعتراف کیا وہ ایک ٹاوٹ ہے، عبدالوحید ڈوگر نے کہا کہ وہ حساس ادارے کا ٹاؤٹ ہے۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے اس پر کہا کہ قاضی صاحب ہر انسان کی اپنی رائے ہوتی ہے، ایک بندے سے سن کر اگلا بندہ بتاتے ہوئے آدھی بات بھول جاتا ہے، امریکا میں عدالتی کاروائی براہ راست نہیں بلکہ ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم امریکا کے غلام نہیں، نہ ہی ان کے پیچھے چلنے کے پابند ہیں، ہمارے پاس ایمان کی طاقت ہے، ہمارا رہنما قائد اعظم محمد علی جناح ہے، امریکا میں عوام کے حقوق جس انداز میں دیے جاتے ہیں وہ سب جانتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو گٹر کہنے کی بات کو غلط انداز میں پیش کیا گیا، موسمی صحافیوں کی توڑ مروڑ کر پیش کی گئی خبریں نشر ہوتی ہیں جبکہ یہاں بیٹھے صحافیوں کی خبریں اخبارات اور ٹیلی ویژن پر نشر نہیں ہوتیں۔
کیس میں ڈپٹی اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں براہ راست عدالتی کارروائی دکھانے کی درخواست پر کہا کہ اس طرح جج عوامی مباحثےکا حصہ بنیں، ٹرائل متاثر ہوسکتا ہے،کیس کی کارروائی براہ راست دکھانے کی درخواست مسترد کی جائے۔
سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ روسٹرم پر آگئیں اور کہا کہ میرے خلاف میڈیا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے، بلوچستان کے عوام نے مجھے بہت عزت دی، سپریم کورٹ اور ایف بی آر آتے جاتے ہمارے ویڈیو کلپ بنائے جاتے ہیں۔
سرینا عیسیٰ نے کہا کہ وزیراعظم، وزیر قانون، شہزاد اکبر نے شوہر کو جج کے عہدے سے ہٹانے کی کوشش کی، اُس وقت کے اٹارنی جنرل انور منصور خان سمیت حکومتی مشینری نے ہمارا ریکارڈ لیا،یہ کام انہوں نے غیر قانونی طور پر کیا۔
جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے بتایا کہ اپنی رقم سے خریدی جائیداد انہوں نے راتوں رات میرے شوہر کی بنا دی، میں عمران خان سے زیادہ ٹیکس ادا کرتی ہوں، فروغ نسیم نے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے عہدے کا ناجائز استعمال کیا، کبھی وزیر کبھی وکیل فروغ نسیم عدالت کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔
سرینا عیسیٰ نے کہا کہ عمران خان میں شکست تسلیم کرنے کا حوصلہ نہیں، جون 2020 ءتک کے میرے ٹیکس ریکارڈ تک رسائی حاصل کی گئی، فروغ نسیم، انور منصور خان ایک دوسرے کو جھوٹا کہتے رہے، شہزاد اکبر نے نوکری شروع کی تو ان کی تنخواہ 35 ہزار تھی جبکہ میں شہزاد اکبر سے 22 سال پہلے سے نوکری کررہی ہوں۔
اہلیہ جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ شہزاد اکبر آج امیر آدمی ہیں، کبھی اثاثے ظاہر نہیں کیے، شہزاد اکبر سےمتعلق ہر سچ پر پردہ ڈالا جا رہا ہے، نیب ایف آئی اے اور ایف بی آر شہزاد اکبر کے معاملے پر خاموش کیوں ہیں؟
جسٹس عمرعطا بندیال نے سرینا عیسی سے کہا کہ اس وقت سماعت کی براہ راست نشریات کی درخواست پر سماعت ہو رہی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ آغا افتخار نے سپریم کورٹ کے جج کو قتل کرنے کی دھمکی دی، آغا افتخار کیس میں شہزاد اکبر کو شامل تفتیش نہیں کیا گیا، کیس کی براہ راست کوریج سے سچ عوام کے سامنے لایا جائے۔
جسٹس فائز نے ایک بار پھر سے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مرزا افتخارالدین کے خلاف میری اہلیہ کی درخواست پر بھی مقدمہ درج نہیں ہوا، مرزا افتخار کا تعلق شہزاد اکبر سے نکل رہا تھا تو تحقیقات روک دی گئیں، مرزا افتخار الدین کا تعلق عمر چیمہ کو پیٹنے والے سے مل رہا تھا، اگر فائز عیسیٰ قتل ہوا تو شہید ہوگا اور جنت میں جائے گا۔
قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ میرے کیس میں فردوس عاشق اعوان پر توہین عدالت کی کارروائی کا کہا گیا، فردوس عاشق اعوان نے اپنے بیان پر معذرت تک نہیں کی، فردوس عاشق اعوان کو پنجاب میں اعلیٰ عہدہ دے دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس منظور ملک نے میری رہنمائی کی ہے، جسٹس منظور ملک کی ہدایت پر کوشش ہے جذباتی نہ ہوں، عدلیہ کے خلاف ففتھ جنریشن وار شروع کی گئی ہے، ملک دشمنوں کے خلاف ففتھ جنریشن وار نہیں ہورہی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بوتھم نے عمران خان پر بال ٹیمپرنگ کا الزام لگایا تھا، عمران خان نے این بوتھم پر مقدمہ کیا اور جیت گئے۔
فائز عیسیٰ نے کہا کہ صدرمملکت بھول جاتے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی کے ورکر ہیں، کیچڑ مجھ پر اچھالا گیا لیکن برداشت ان سے نہیں ہورہا تھا۔
صدر مملکت نے ایوان صدر میں بیٹھ کر 3 انٹرویوز دیے، صدرنے کہا ریفرنس پرخاموش رہنے اورمیڈیا ٹرائل کا بھی آپشن تھا، جبکہ تیسرا آپشن جوڈیشنل کونسل کا تھا جو استعمال کیا۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے اس پر کہا کہ صدر کبھی میڈیا ٹرائل نہیں کرواتے، یہ خود ہو جاتا ہے، بہتر ہوگا ان باتوں پر نہ جائیں، جسٹس فائز عیسیٰ نے اس پر کہا کہ سچ بولتا رہوں گا چاہے کسی کو برا ہی کیوں نہ لگے۔
جسٹس بندیال نے کہا کہ عدالت جس سماعت کیلئے بیٹھی ہے بات اس سے دوسری طرف جاچکی ہے،ہمیں کمنٹری سننے پر مجبور نہ کریں، آپ بات اس طرف لے گئے کہ حکومت نے آپ کی تضحیک کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت کو بتایا کہ ریفرنس پر کوئی بیان جاری نہیں کیا، خبرحکومت نے لیک کی، مزید 3 سال بینچ میں رہنے یا پینشن لینے میں کوئی دلچسپی نہیں، میری دلچسپی صرف عدلیہ کی عزت اور احترام میں ہے، اسے بطور فائز عیسیٰ کیس نہ دیکھیں، یہ عدلیہ کے وقار کا معاملہ ہے۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ تاثر ہمیشہ حقیقت سے مختلف ہوتا ہے جس کے بعد عدالت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی درخواست کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔