اس خطے کی قدیم تاریخ کا قریشی، بلوچ، پٹھان، عباسی، دھریجے، سمیجے ،کوریجے سے کوئی واسطہ ہی نہیں ملتان کی قدیم تاریخ کو صرف وہ نسلیں تسلیم کرسکتی ہیں جو انبالہ سے پشاور اور سیالکوٹ سے سندھ تک آباد تھیں اور سندھی ہندو کراڑ نسل کا سمیجہ کوریجہ دھریجہ بھی صرف تب ملتان کی تاریخ کو اون کرسکتا ہے جب وہ سندھ سے لے کر کشمیر تک اس سارے علاقے کو ❞ایک اکائی❝ میں تسلیم کرے کیونکہ یہ ہمیشہ ایک ہی اکائی میں تھا ہندو دور میں یہ سب علاقے اس طرح تقسیم نا تھے جس طرح مسلمانوں نے آکر ان علاقوں کو تقسیم کیا۔
ہندو اپنی اپنی چھوٹی بڑی ریاستوں پر حکومت ضرور کرتے تھے لیکن اس تمام علاقے جس میں شملہ چمبہ، جموں، کشمیر، پنجاب راجستھان، بھارتی پنجاب، اور سندھ شامل ہے کو ایک مشترکہ اکائی میں دیکھتے تھے تبھی تو راجہ داہر کوئی سندھی نہیں بلکہ کشمیری برہمن تھا، اتنے بڑے مُلک میں مختلف علاقے میں بسنے والے لوگوں کو علاقے کی نسبت سے مختلف ناموں سے جانا جاتا تھا جیسے مالوے والوں کو مالوائی، دوآبے والوں کو دوآبی، بار والوں بار کی نشبت سے تو پوٹھوہار والوں پہاڑی نسبت سے اسی طرح ملتان طرف کے لوگوں کو ملتانی نسبت سے پہچانا جاتا تھا پنجاب جتنے علاقے پر دو سو سے زیادہ چھوٹے بڑے راجاؤں کی حکومت ہوتی تھی سندھ جتنے علاقے پر پچاس سے زیادہ چھوٹے بڑے راجاؤں کی حکومت ہوتی تھی۔
ہندوستان جس جس طرح سے مسلمانوں کے ہاتھ میں گیا اُس اُس طرح سے اس علاقے کی قدیم حیثیت معدوم ہوتی گئی بھلا اُچ شریف کا ملتان کی قبل از اسلام کی تاریخ سے کیا تعلق؟ لیکن آج آپ کو اُچ شریف ایسے بڑھا چڑھا کر بتایا جاتا ہے جیسے بابا آدمؑ کا پہلا گھر یہیں بنا تھا بھئی اُچ شریف تو تب اُچ شریف بنا نا جب یہاں مسلمان آئے اور انکے بابوں کی مزاروں درگاہوں سے یہ مشہور ہوگیا۔
بھئی قلعہ دیرآور کا موجودہ ملتان یا بہاولپور میں بس رہے قریشی، عباسی، سڈوزئی، گوپنگ، بلوچ سے کیا تعلق؟ وہ تو اسلام سے کئی صدیاں قبل جیسلمیر کے ہندو راجپوت راجہ نے بنوایا تھا، تو بات یہ ہے کہ ملتان کی تاریخ کو اگر کوئی بندہ تسلیم کرسکتا ہے تو وہ وہی کرسکتا ہے جو قبل از اسلام کی ہندو نسلوں سے مسلمان ہوا ہے کردستان، افغانستان، عرب، بخارا سے آنے والے مہاجر و پناہگیروں کا اس تاریخ سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔