میرے والدین دونوں ڈاکٹر مبشر حسن کے پولنگ ایجنٹ تھے۔ 1970 کا الیکشن تھا تب میرے امی اور ابو کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب اس حلقے سے الیکشن لڑ رہے تھے۔
بھٹو صاحب سونامی کی طرح مغربی پاکستان میں چھائے ہوئے تھے اور شمالی لاہور کی قومی اسمبلی کی سیٹ سے پانی پت کے مہاجر ڈاکٹر مبشر حسن ٹھیٹھ پنجابیوں اور لاہویوں کو شکست دے کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے تھے۔ یاد رہے ڈاکٹر صاحب نے لاہور میں رہائش پذیر ہونے کے باوجود اپنے آپ کو پانی پت کی تہذیب میں ڈھالا ہوا تھا اور انکو پنجابی بولنی بالکل نہیں آتی تھی نہ ہی کبھی انہوں نے پنجابی سیکھنے کی کوشش کی اس لیے کہ لاھور اور پنجاب میں پنجابی اور اردو دونوں زبانوں کا چلن ہے۔
باآسانی سے جس کو پنجابی نہ بھی آتی ہو وہ اردو سے گزرا کر لیتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب تمام کارکنوں کی نہ صرف سیاسی تربیت کرتے تھے بلکہ ان کا تاریخی اور ادبی شعور بھی بڑھاتے تھے۔ میں ڈاکٹر صاحب سے اپنی ملاقاتوں کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہوں۔ ایک وہ جو والدین کے ساتھ ان سے ملا دوسرا انکے ساتھ دو بار مختلف ادوار میں کام کرنے کا موقع ملا۔ میں نے انکے ساتھ بطور محقق ،لکھاری کام کیا بلکہ ان کا سوشل میڈیا پر فیس بک اکاؤنٹ بھی چلایا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کچھ کتابیں میری معاونت سے لکھیں جس میں ان کو مختلف مضوعات پر ریسرچ کر کے دیتا تھا ایک کتاب تو بہت ہی دلچسپ تھی جس میں ان افراد کے انٹرویوز تھے جو 1965 کی جنگ میں بطور رضاکار کام کرتے تھے اور بعد میں پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنان بنے۔ ڈاکڑ صاحب ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت پر ایک اتھارٹی تھے۔ شاہد ہی بھٹو صاحب کے بارے میں اس جیسی معلومات کسی اور کے پاس ہوں جو ڈاکٹر صاحب کے پاس تھیں۔ ڈاکٹر صاحب موجودہ نظام حکومت کے بہت بڑے ناقد تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ نظام عوام کا خون چوس رہا ہے اس نظام کے ہوتے ہوئے عوامی فلاح و بہبود نہیں ہو سکتی.
ان کا کہنا تھا کہ 12 ہزار برٹش افسران نے چالیس کروڑ ہندوستانیوں پر حکومت کرنے کے لیے جو سول و ملٹری بیورو کرسی کا جو نظام بنایا تھا۔ حکمران اور رعایا کا نظام تھا۔ آزادی کے بعد بھی نظام کی ہیئت تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ دانستہ اسی نظام کو اپنایا گیا۔ میں اکثر ان سے پوچھتا کہ آپ نے وزارت خزانہ سے استعفی کے بعد دوبارہ کبھی قومی اسمبلی کا الیکشن نہیں لڑا، کبھی سینیٹ کے رکن بھی نہیں بنے۔
وہ زیر لب مسکراتے اور کہتے یہ وزیراعظم وزراء اور ایوان بالا اور زیریں کی لشکر سب بے اختیار یہی ہے۔ انکے پاس کوئی اختیار نہیں۔ ڈاکڑ صاحب تو پھر اختیار کس کے پاس ہے میں حیران ہو کر پوچھتا ہوں۔ ہیت مقتدرہ کے پاس وہ کہ کر خاموش ہو جاتے۔ میں نے انکے ساتھ جو زندگی کے چند سال بتائے اس میں بہت کچھ سیکھا نہ صرف سیاسی تربیت کے نظام حکومت کی خامیوں کا بتایا بلکہ میری سماجی تربیت بھی کی وہ اپنے ساتھ بیٹھنے والوں کو آداب محفل بھی سکھاتے تھے۔ کھانے پینے کے آداب محفل میں گفتگو کرنے کے طریقے کسی طنز ومزاح کی بات پر مسکرانے کے آداب سب کچھ تھا جو وہ بتاتے تھے۔
وہ موجودہ کرپٹ سیاسی نظام سے بہت ناراض تھے. بھٹو صاحب کی بعد کی پیلز پارٹی سے نالاں اور فاطمہ بھٹو کی سیاسی تربیت بھی کرتے تھے۔ میں نے ایک بار انکو بتایا کہ میرے ایک دوست تحریک انصاف کی ٹکٹ پر حمزہ شہباز کے مقابلے پر الیکشن لڑ رہے ہیں اس نے مجھے بتایا ہے کہ الیکشن پر اسکے چھ کروڑ روپے لگے ہیں۔ حمزہ شہباز نے اس سے دوگنے خرچ کیئے ہیں وہ بہت حیران ہوئے کہنے لگے میرے تو صرف 30 سے 40 ہزار روپے لگے تھے۔ زندگی کے آخری چند سال ان کا فیس بک اکاؤنٹ میں نے چلایا میں انکو سیاسی حالات حاضرہ پر شام کو جا کر بریفنگ دیتا پھر وہ بولتے اور میں لکھتا جاتا جسکے بعد میں انکی پوسٹ کی صورت میں فیس بک وال پر ڈال دیتا۔ ڈاکٹر صاحب عمران خان کی دلیری اور ایمانداری کے باعث اسے پسند کرتے تھے۔ تاہم وہ سمجھتے تھے موجودہ نظام حکومت عمران خان کو ناکام کر دے گا۔ کچھ نادان اور روایتی سیاست دانوں کے ذہنی غلاموں نے یہ سمجھنا شروع کر دیا کہ ڈاکٹر صاحب میری وجہ سے عمران خان کی حمایت کرتے ہیں جس پر ان کو مختلف طریقوں سے یہ پیغام بھی بھیجے گئے۔ زندگی کے آخری سال وہ شدید بیمار رہے ان کا فیس بک اکاؤنٹ بھی بند رہا ایک بار اس دوران میں ان سے ملنے بھی گیا وہ بہت تپاکِ سے ملے. پچھلے سال 14 مارچ کو میں اپنی بیوی اور بچے کو برطانیہ روانگی کے لئے ہوائی اڈے چھوڑ کر واپس گھر آ رہا تھا کہ بردرام عدنان عادل کا فون آیا کہ ڈاکٹر مبشر حسن وفات پا گئے ہیں. بے اختیار خدائے سخن میر تقی میر یاد آئے۔ پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ۔ افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی.