ماضی قریب میں پیدا شدہ بین الاقوامی اور علاقائی صورتحال پچھلے چند دنوں کے واقعات کی روشنی میں اگر طبل جنگ نہیں تو لمحہ فکریہ ضرور ہے۔ اسرائیل کے فلسطینی رہائشی علاقوں کو زمین بوس کرنے سے لے کر شام میں حالیہ انسانی تباہی کی تصویر ماضی قریب کے ان واقعات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ امریکہ نے پہلی دفعہ کسی حکومت کے ایک حصے یعنی ایرانی اسلامی انقلاب گارڈز کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے۔
امریکہ نے نہ صرف ایران کے ساتھ کثیر ملکی ایٹمی معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی ہے بلکہ ایران کے ساتھ تجارت کرنے والے ممالک کو کھلم کھلا دھمکی بھی دے دی ہے۔ ابراہیم لنکن بھی بی۔52 بمبرز کو لے کر خلیج فارس کی طرف نقل مکانی کر چکا ہے۔ دو دن پہلے اس خطے میں سعودی تیل بردار اور دوسرے جہازوں پر پراسرار دہشتگردی اور سعودی عرب کے اندر تیل کی تنصیبات پر دہشت گردی کی وجہ سے حالات اور سنگین ہو چکے ہیں۔ قطر میں امریکی اڈوں پر چار بی -52 بمبرز کی آمد کے ساتھ ساتھ امریکہ نے خلیج فارس کی جانب میزائل سے لیس دوسرا بحری بیڑہ بھی روانہ کر دیا ہے۔
کیا دال میں کچھ کالا ہے؟ یا پھر صدر ٹرمپ، سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو اور قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن صرف اچھل کود کر رہے ہیں۔ شمالی کوریا، کیوبا اور وینزویلا کی صورت میں اسکا ایک تاریخی پس منظر بھی موجود ہے۔ کیا یہ سب کچھ “گن بوٹ ڈپلومیسی” کا حصہ ہے یا پھر ہم ایک محدود جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں؟
صدر ٹرمپ نے اپنی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ افغانستان سے شام تک وہ جنگیں جو جیتی نہیں جا سکتی وہاں سے امریکہ نکل جائے گا۔ اس میں کتنی صداقت ہے وہ صدر ٹرمپ بھی جانتے ہیں۔ ممکنہ امریکی حملے کی صورت میں ایرانی ردعمل کی نوعیت اور شدت کیا ہوگی اور کیا اس کا پھیلاؤ اسرائیل اور سعودی عرب تک چلا جائے گا؟ اس کا علم ایران کو کچھ حد تک ہو گا۔ آج کی صورتحال میں جہاں اسرائیلی وزیر خارجہ نے کل ممکنہ امریکی حملے کی صورت میں ایرانی ردعمل میں اسرائیل کو حدف قرار دیا ہے وہاں اسرائیل کس قسم کی فوجی تیاریاں کررہا ہوگا، حزب اللہ اور اسلامی جہاد کس سطح تک متحرک ہوں گے اور غیر روایتی جنگ کا وسیع تجربہ اور واقفیت رکھنے والا ایران کن خطوط پر تیاری کر رہا ہو گا اسکا صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔
اب خلیج فارس میں چار سے چھ جہازوں کو لگی آگ کا الزام ایرانی آبدوز پر لگایا جارہا ہے جبکہ ایران اسے امریکی طیاروں کی بمباری، جنگ کا بہانہ حتی کہ امریکہ کو ایک موجی اور وہمی اداکار قرار دے رہا ہے۔ اسی طرع سعودی عرب میں ” ہوتی باغیوں” کے دہشت گرد حملے سے اس حملے کا کیا تعلق ہے؟ حقیقت کیا ہے
امریکہ اور ایران دونوں جانتے ہیں۔ تاہم عام عوام کو سچ کا علم ہونا معنی نہیں رکھتا۔نیویارک ٹائمز نے ایک لاکھ بیس ہزار امریکی فوجیوں کو خلیج فارس بھیجنے کی خبر دی ہے جبکہ امریکی صدر نے کسی بھی امریکی جنگ یا جارحیت کی تردید کی ہے۔ اب امریکی صدر اور نیویارک ٹائمز میں کون زیادہ قابل اعتبار اور بھروسہ ہے اس کی بھی ایک تاریخ ہے شاید دونوں ٹھیک ہوں اور فوجی صرف بحری پکنک پر جا رہے ہوں۔
بیشک ایران آج کے حالات میں امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کا مشترکہ دشمن ہے تاہم اس کے ساتھ جنگ تینوں کے مفاد میں نہیں اور یہ حقیقت ان تینوں کے علاوہ ایران کو بھی پتہ ہے۔ لیکن پھر بھی خلیج فارس کی موجودہ صورتحال میں جنگ اور خاص طور پر حادثاتی جنگ کا خطرہ موجود ہے۔ غلط اندازے یا “بھول چوک”کے جتنے امکانات امریکی صدر ٹرمپ کی موجودگی میں ہیں وہ پچھلے 15 سال میں نہیں تھے۔ صدر ٹرمپ کے داخلی اور خارجی عمل اس خدشے کی تصدیق کرتے ہیں۔
امریکہ کی نظر میں محدود اور موضوع ردعمل کیا ہے اور کیا یہ ایران کو قابل قبول ہوگا؟ حالات بے قابو ہونے کا اندیشہ کس حد تک موجود ہے اور ایسی امریکی حکمت عملی یا غلطی کس حد تک ناقص اور نقصان دہ ثابت ہو گی اس کا صحیح اندازہ نہ امریکہ کو ہے اور نہ ہی ایران کو تاہم اللہ کی ذات جانتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اللہ کے دربار میں امتحان سے پہلے پرچہ آؤٹ نہیں ہوتا یہ اُس ذات کا امتحان ہو گا نہ کہ سندھ بورڈ کا پرچہ۔ کسی بھی قسم کی امریکی جارحیت پاکستان میں پیٹرول کی قیمتوں، مہنگائی اور روپے کی قدر کو کس طرح کے چار چاند لگا دے گی اس کے لیے کسی ماہر معاشیات کی ضرورت نہیں۔
پاکستان علاقائی سطح پر کسی بھی بڑی غلطی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ سول اور فوجی قیادت کو اس کا احساس رکھنا ہو گا۔ کوئی بھی قبل از وقت، ادھورا یا ضرورت سے زیادہ جھکاؤ ملکی سالمیت اور خودمختاری کو نئے خطرے میں مبتلا کر سکتا ہے۔
ہم نے ایک پڑوس میں امریکی جارحیت اور اس کے اثرات کی قیمت خون دے کر ادا کی ہے۔ دوسرے پڑوسی سے امریکی مہم جوئی بھی داخلی خونریزی میں اضافہ کرے گی۔ پائپ لائن کے مسائل ہوں یا دہشتگردی کے معاملات پاکستان کو قومی سطح پر سوچ اور عمل میں ٹھہراؤ، منطق اور کاریگری لانی پڑے گی۔ ہوشیار رہو !