ان کے اس جواب سے مجھے 28 ستمبر 2019 کو لکھا اپنا کالم ’دائروں کا سفر‘ یاد آ گیا۔ دیکھیے کہ میں نے اس میں کیا گذارش کی تھی: ’’سیاستدان اپنے پروگرام کے تحت ووٹ لے کر اسمبلی میں آتے ہیں تو عوام سے کیے وعدے کی تکمیل چاہتے ہیں لیکن یہاں پر کچھ ان دیکھی رکاوٹیں راستے کی دیوار بن جاتی ہیں۔ جب ان رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو خود یا پھر عدلیہ کے ذریعہ اس کو جیل کا راستہ دکھا دیا جاتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی عقل کل نہیں۔ ہم پہلے ہی قومی زندگی کے 72 قیمتی سال ضائع کر چکے ہیں اور ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام ادارے مل کر بیٹھیں، کھلے دل سے ماضی میں کی گئی غلطیوں کا اعتراف کریں، اپنی حدود کا تعین کریں، ایک میثاق پر دستخط کریں اور پھر صدق دل سے اس پر کاربند رہیں ورنہ دائروں کا یہ سفر یونہی جاری رہے گا اور ہم عالمی برادی میں منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہیں گے‘‘۔
کون نہیں جانتا کہ 2018 کے الیکشن میں کیا ہوا تھا۔ یہ ایک ایسا راز ہے جس سے سارا عالم واقف ہے۔ یہ نہیں کہ اس سے قبل ہونے والے انتخابات مداخلت سے پاک تھے، یقیناً ایسا نہیں ہوا۔ لیکن ان انتخابات میں جس طرح جھرلو پھیرا گیا، ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس جھرلو کے نتیجے میں ایسے لوگ بھی قومی اسمبلی کا انتخاب جیت کر مرکزی وزیر بن گئے جو اپنے حلقے میں کونسلر بھی منتخب نہیں ہو سکتے تھے۔ خاص طور پر کراچی سے حکمراں جماعت کے جو لوگ منتخب ہوئے ان کے بارے میں یہ بات اس لئے بھی وثوق سے کہہ سکتا ہوں کیونکہ ان میں سے بیشتر سے میں واقف ہوں۔
جو بیت گئی سو بیت گئی۔ آگے کا سوچنا ہے کہ ایک بے داغ شہرت کے مالک سابق وزیر اعظم کی بات پر دھیان دینا ہے یا سانپ سیڑھی کا یہی کھیل جاری رکھنا ہے۔ پہلے بھی کہا تھا اور اب پھر دست بستہ گذارش ہے کہ اب بس کر دیں اور ملک کو چلنے دیں۔ یہ ملک چلے گا تو آپ کی نوکری بھی چلے گی۔
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں