اچانک میں نے دیکھا کہ میرے سامنے کی اونچی دیوار پر لگے بلب کی پیلی روشنی کے سامنے ایک لمبا سا نحیف جثہ، کالی شیروانی اور قراقلی ٹوپی پہنے مضبوطی سے اپنی جگہ کھڑا میری جانب تک رہا ہے۔ میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ آواز جیسے گلے میں ہی گم تھی۔ حیرت اور خوف کے ملے جلے جذبات کے غلبے میں ہمت سے کام لیتا ہوں اور بولتا ہوں، کون ؟ کون ہے؟ وہ جثہ میری طرف دھیرے سے بڑھتا ہے، ٹوپی کو ایک ہاتھ سے سیدھا کرکے فرماتا ہے، اور قریب پڑی کرسی پر بازور ٹکا کر فرماتا ہے۔۔۔ میں ، محمد علی جناح ہوں، نوجوان!
یقین کیجئے کہ یوں تھا جیسے سب کچھ زمان و مکان کی قید سے باہر آگیا ہو۔ وہ چند لمحے یوں تھے جیسے احساس اور جسم کے درمیان رشتہ منقطع ہو گیا جیسے میں ہوا میں معلق ہوں۔ سب کچھ سنسنی خیز تھا ۔۔ میں نے انکے چہرے کو دیکھنا چاہا ہو بہو ویسا ہی محمد علی جناح تھا جیسا ہماری معاشرتی علوم کی کتاب پر بنا تھا۔ لیکن ایک اضطراب اور جھنجھلاہٹ انکے چہرے پر تھی، جو میں نے انکی کسی تصویر میں، کبھی نہیں دیکھی تھی ۔ ہم پاکستانی کسی پریشان قائداعظم کو تو جانتے ہی نہیں۔ شاید یہی وہ چیز تھی جو اس منظر میں بے یقینی کا رنگ بھر رہی تھی۔ اسی کشمکش اور حیرت میں مبتلا برف بنا میں صرف یہی منہ سے نکال سکا ۔۔۔ قائداعظم ؟ اس شخصیت نے متانت سے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔۔۔ ہاں۔
اس سے پہلے کہ میں کوئی رد عمل دیتا وہ گویا ہوئے۔ دیکھو نوجوان! میں تم سے کچھ اہم باتیں کرنے آیا ہوں۔ اور میں چاہتا ہوں کہ تم سے میں جو کچھ کہوں بنا کسی تحریف کے من و عن قوم تک پہنچا دو۔ تم پر کوئی یقین کرے یا نہ کرے، تمہارا یہ فرض ہے کہ تم قوم کو اس ملاقات کے بارے میں بتاؤ۔ زمان و مکان سے عاری اس منظرمیں کہیں معلق سا میں کیا انکار کرتا؟ نحیف سی ہاں کردی۔
محمد علی جناح گویا ہوئے۔ دیکھو بہت کم ہوا ہے کہ مجھے قوم کے کسی فرد سے رو برو ہونے کی ضرورت پڑی ہو۔ یہ سچ ہے کہ یہ ملک کبھی بھی وہ نہیں رہا جس کے بارے میں میں نے کبھی سوچا تھا۔ لیکن میں تاریخ کے حوالوں کو ٹھیک کرنے تم سے ملنے نہیں آیا۔ یہ معاملہ مستقبل کا ہے۔ میری قوم کو بتاؤ کہ عالمی وبا کو سنجیدہ لے۔ وہ خطرے میں ہے۔ اس ملک کے اصل وارث یہاں کے عوام ہیں، ان کی زندگیاں داؤ پر لگ چکی ہیں اور میں پنجاب سے بڑی تباہی کو اٹھتا ہوا دیکھ رہا ہوں۔
پنجاب سے ؟ میں نے عرض کی ۔ ہاں پنجاب سے۔ مجھے پنجاب کی گریہ وزاری سنائی دے رہی ہے۔ ایک وقفے کے بعد ہوا میں تکتے ہوئے گویا ہوئے میری قوم سے کہو تم پر ایسی کسی حکومت اور کسی ایسے حکمران کو حکومت کرنے کا حق نہیں جو کسی مصیبت کے وقت تمہیں اس مصیبت کے آگے ڈال کر خود ہاتھ جھاڑ لے۔ قوم کو کہنا جناح نے کہا ہے۔ جس وقت لٹے پٹے لاکھوں مہاجرین نوزائدہ پاکستان میں آئے تھے، جناح نے نہ ہی اسکے کسی ساتھی نے قوم کو یہ جواب دیا کہ ہم امریکا یا مغرب کے ممالک کی طرح نہیں، ہم اتنے مہاجرین کو نہیں سنبھال سکتے۔ جناح نے وسائل نہ ہونے کا رونا رو کر عوام کو بے یار و مدد گار نہیں چھوڑ دیا تھا۔
قوم کو بتانا کہ محمد علی کو فکر اس بات کی ہے کہ کل اگر بھارت نے اپنے نا پاک عزائم کو پورا کرنے کے لئے پاکستان پر حملہ کردیا تو اسے ڈر ہے کہ عین مقابلے کے وقت یہ حکمران یہ کہہ کر بھاگ کھڑا ہوگا کہ اپنے سے 10 گنا بڑے ملک کا ہم کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں؟ انہیں کہنا کہ قائداعظم نے کہا ہے کہ ان کے مطابق اس حکومت کو تم پر حکمرانی کرنے کا کوئی حق نہیں رہا ہے۔ ایسی حکومت حق حکمرانی کھو بیٹھتی ہے جو عوام کا خیال نہ رکھ سکے۔ اور نہ ہی تم پر یہ فرض کہ تم اسکے تابعدار رہو۔ ایک توقف کے بعد بولے. کیا تم یہ سب بتاؤ گے؟ پھٹی ہوئی آنکھوں سے میں صرف اپنی گردن ہی ہلا سکا۔
قائد اپنے رعب دار لہجے میں پھر گویا ہوئے۔ یہ ایسا وقت تھا کہ جب میرے لوگوں کو ریاست کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ میں چاہتا تھا کہ ریاست کے تمام ادارے کم ازکم عوام کے ساتھ کھڑے ہوں۔ میں نے دیکھا کہ آج عوام ایک طرف ہیں اور ادارے ایک طرف، حکمران ایک طرف۔ قوم کو کہنا ہے جناح نے کہا ہے کہ میں نے پاکستان اس لئے نہیں بنایا تھا کہ عوام پر ظلم ہو اور خاموشی رہے۔ غور سے دیکھو، آج تم لوگوں کے پاس جو مزاحمت کا حق تھا وہ چھن چکا ہے۔
میں سب جانتا ہوں، چند جرنیلوں، سیاستدانوں ججوں اور صحافیوں اور تاجروں نے مل کر تم سے سب کچھ چھین لیا ہے۔ اور تم سے یہ سب چھیننے والے وہ ہیں جو تمہیں تمہاری ہمدردی کے نام پر بے وقوف بناتے ہیں۔ دیکھو غور کرو جس پر تنقید کرنے سے پہلے تمہیں دس بار سوچنا پڑے وہ ہے تمہارے حقوق کا لٹیرا۔ حتیٰ کہ ایک وبا قوم کو نگلنے کے درپے ہے یہ سب مل کر سب اچھا کی نوسربازی میں مصروف ہیں، غور کرو! اس پہلے کے حکمران بھی قطعی اچھے نہ تھے لیکن وہ لولی لنگڑی بھاگ دوڑ ضرور کرتے تھے۔ یہ نوسربازوں کی حکومت ہے۔ میں کبھی نہ آتا کی اگر میری قوم کو اسکی زندگی کی سب سے بڑی آزمائش میں بے سر و ساماں بیچ منجدھار چھوڑنے کا اعلان نہ کردیا جاتا۔
نوجوان میرا پیغام قوم کو لازمی دینا۔ کہنا کہ جناح پوچھتا ہے۔ تم کیوں چپ ہو؟ مجھے بتاتے کیوں نہیں کہ تم ایک زندہ قوم ہو؟ استحصال کے ایسے گٹھ جوڑ کو اکھاڑ کیوں نہیں پھینکتے؟ یہ اتنا مہنگا سودا نہیں ہے۔ کیوں کہ ویسے بھی تم سب وبا کے بھوکے شیر کے آگے پھینک دیئے گئے ہو آج نہیں تو کل تم سے کئی نہیں ہوں گے یا پھر تمھارے خاندان میں سے کوئی نہیں ہوگا اور تمھارا تمھارے خاندان کا نوحہ پڑھنے کی بھی ان خیر خواہوں کی جانب سے اجازت نہیں ہوگی! یقین کرو کہ مجھے آج عالم اجسام میں آنے کی اجازت ہوتی تو شاید بھونچال برپا کردیتا۔ تم 22 کروڑ لوگ ہو! کیوں چپ ہو؟ کچھ نہیں کرسکتے تو دنیا کے اداروں کو خط ہی لکھو! حکومت کو مجبور کرو کہ یہ تمہیں وبا کے سامنے پھینکنے کی بجائے خود دم دبا کر بھاگ جائیں یا تمہاری ذمہ داری لیں۔
قوم کو بتاؤ کہ جن غریبوں کا نام لے کر وبا کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں مجھے خوف آتا ہے کہ ان کی لاشیں شمار نہ ہوپائیں گی۔ تم پر فرض ہے کہ جس اطمینان سے تمہیں ہنکار دیا گیا ہے اسی اطمینان کو ان کے گلے کا طوق بناؤ! ان کو بتانا کہ وقت ریاست اور عوام میں سے ایک طرف چننا ہو تو محمد علی عوام میں کھڑا ہوگا! اور ۔۔۔
اذان کی آواز نے اس ماحول کے سحر کو توڑا اور پھر آنکھ کھل گئی۔ ماحول میں ایک بارعب شخصیت کے جلال کی تپش اب بھی موجود تھی۔ اس کے بعد ایک ایک لمحہ میں نے شدید دباؤ میں گزارا ہے۔ لیکن اب میں نے فیصلہ کیا تھا کہ اگر میں کر سکتا ہوں تو کیوں نا میرے قائد نے میرے خواب میں آکر جو کچھ کہا میں آپ کے آگے رکھ دوں کہ میرے ضمیر کا بوجھ کچھ کم ہو۔
تاہم ایک سوال خود سے بھی پوچھ رہا ہوں، یہ قائداعظم انقلابی کب سے ہو گئے؟ بہر حال خوابوں میں ایسا ہی ہوتا ہے