اشرف غنی، عبدﷲ عبدﷲ کے درمیان بالآخر معاہدہ طے پا گیا

اشرف غنی، عبدﷲ عبدﷲ کے درمیان بالآخر معاہدہ طے پا گیا

ایک ایسے وقت میں جب جنگ سے متاثرہ افغانستان میں تشدد اور بدامنی کے واقعات تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں، افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور ان کے سیاسی حریف ڈاکٹر عبدﷲ عبدﷲ کے درمیان آٹھ ماہ سے تعطل کا شکار الیکشن تنازعہ بالآخر حل ہو گیا ہے اور دونوں کے درمیان طاقت کی تقسیم کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔


صدر اشرف غنی کے ترجمان صدیق صدیقی نے ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک بیان میں اعلان کیا کہ سیاسی معاہدے پر دستخط کر لیے گئے ہیں جس کے تحت اشرف غنی صدر جب کہ ڈاکٹر عبدﷲ عبدﷲ اعلی قومی مفاہمتی کونسل کے سربراہ ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ معاہدے کے تحت عبد اللہ عبداللہ کے ٹیم کے ممبران کو کابینہ کا حصہ بنایا جائے گا۔


یاد رہے کہ اعلی قومی مفاہمتی کونسل کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ملک میں امن کے عمل سے متعلق تمام فیصلے کرے اور ان پر عمل درامد کو یقینی بنائے۔


ادھر ڈاکٹر عبدﷲ عبدﷲ کے ترجمان امید میسم نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ صدارتی محل میں معاہدے پر فریقین کی طرف سے دستخط کیے گئے لیکن دونوں رہنماؤں کی ٹیکنکل ٹیمیں اس پر عمل درآمد کے ضمن میں آئندہ چند دنوں میں صلاح و مشورے کریں گی۔


یاد رہے کہ گذشتہ سال ستمبر میں افغانستان میں صدراتی انتخابات کا انعقاد ہوا جس میں اشرف غنی نے پچاس فیصد ووٹ حاصل کیے تھے جب کہ مخالف امیدوار عبدﷲ کے حصے میں 39 فیصد ووٹ آئے تھے۔ تاہم بعد میں عبدﷲ عبدﷲ نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا کر نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ بعد میں آزاد افغان الیکشن کمیشن کی طرف سے دھاندلی کی تحقیقات بھی کی گئیں لیکن ڈاکٹر عبدﷲ پھر بھی نتائج ماننے سے انکار کرتے رہے اور نتیجتاً رواں سال مارچ میں دونوں امیدواروں نے خود کو صدر منتخب قرار دے کر اپنے اپنے عہدوں کا حلف بھی اٹھا لیا تھا۔ یہ شاید افغانستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا جب ایک ہی روز دو صدور نے اپنے اپنے عہدوں کا حلف اٹھایا اور بعد میں کابینہ بنانے کے اعلانات بھی کیے گئے۔


یہ بحران مسلسل کئی ماہ تک جاری رہا اور اس دوران فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدہ ہوا۔ لیکن پھر بھی بحران ختم نہیں ہوا جس پر امریکہ کی طرف سے سخت بیانات سامنے آئے اور بالآخر ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے دھمکی دی گئی کہ اگر سیاسی انتشار ختم نہیں کیا گیا تو امریکہ افغانستان کی سالانہ امداد میں ایک بلین ڈالر کی کٹوتی پر مجبور ہو جائے گا۔


افغانستان میں گذشتہ دس سالوں کے دوران یہ دوسری مرتبہ ہے کہ الیکشن میں نہ صرف وسیع پیمانے پر دھاندلیوں کے الزامات لگائے گئے بلکہ امیدواروں کی طرف سے نتائج ماننے سے بھی انکار کیا گیا۔ 2014 کے صدارتی انتخابات میں بھی انہی دو امیدواروں کے مابین اسی طرح تنازعہ پیدا ہوا تھا جسے بعد میں امریکہ کی طرف سے ایک معاہدے کے ذریعے حل کرایا گیا تھا۔


اب سوال یہ ہے کہ کیا ہر مرتبہ افغانستان میں الیکشن کے معاملات ایسے جرگوں یا مز اکرات سے طے کیے جائیں گے یا افغان جمہوری اداروں بالخصوص آزاد افغان الیکشن کمیشن کے اختیار اور فیصلوں کو بھی تسلیم کیا جائے گا۔


افغانستان میں انتخابات پر نظر رکھنے والے پشاور یونیورسٹی کے شعبہ تعلقات عامہ کے سابق چئیرمین پروفیسر اعجاز خان خٹک کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ اچھا رحجان نہیں ہے لیکن بدقسمتی سے جمہوریت کا سفر ہر جگہ مشکلات سے بھرا پڑا ہے۔


انہوں نے کہا کہ افغانستان جیسے روایتی معاشرے میں جہاں جنگ وجدل بھی ہو اور عالمی طاقتوں کا اثر رسوخ بھی وہاں اگر اور کچھ اچھا نہیں ہو رہا تو پھر ایسے فیصلوں کو اچھی پیش رفت ہی کہا جا سکتا ہے۔


یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ معاہدہ ایسے وقت ہوا ہے جب افغانستان میں کچھ دنوں سے نہ صرف تشدد کے واقعات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے بلکہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان فاصلے بھی تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں۔


افغان طالبان نے کابل میں اشرف غنی اور عبدﷲ عبدﷲ کے درمیان ہونے والے شراکت اقتدار کے معاہدے کو ناکام تجربہ قرار دیا ہے۔ طالبان قطر سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے ٹوئٹر پر جاری ایک بیان کہا ہے کہ افغانوں کو اصل مسائل کی طرف آنا چاہیے اور ان کے حل پر توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ افغان مسئلے کا واحد حل دوحہ معاہدے پر عمل درآمد ، قیدیوں کی رہائی اور بین الاافغان مذاکرات کا آغاز ہے۔

پشاور کے سنئیر صحافی اور مصنف عقیل یوسفزئی کا کہنا ہے کہ جس طرح کچھ دنوں سے افغانستان میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اس کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو اس معاہدے کو ایک مثبت پیش رفت کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاہدے سے کم از کم افغانستان میں اندرونی کشیدگی اور سیاسی انتشار کا خاتمہ ہوگا اور جس سے افغان قیادت ملک کے مستقبل کے لئے بہتر انداز میں سوچ سکے گی۔


ادھر امریکہ اور تمام مغربی ممالک نے صدر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبدﷲ عبدﷲ کے درمیان ہونے والے معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے اور اسے افغانستان کے امن کے لئے نیک شگون قرار دیا ہے۔

مصنف پشاور کے سینیئر صحافی ہیں۔ وہ افغانستان، کالعدم تنظیموں، ضم شدہ اضلاع اور خیبر پختونخوا کے ایشوز پر لکھتے اور رپورٹ کرتے ہیں۔