ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام جس میں عموماً حکومتی ترجمانی کرتے ہوئے خبریں، رپورٹس، تجزیے اور تبصرے پیش کیے جاتے ہیں میں پروگرام کے اینکر صابر شاکر نے دعویٰ کیا کہ اگلے انتخابات میں عمران خان کی جگہ مریم نواز پاکستان کی وزیراعظم بنیں گی۔
اس پروگرام کی خبر انگریزی اخبار دی نیوز میں شائع ہوئی جس میں لکھا گیا ہے کہ یہ صحافی ماضی میں عمران خان کے حامی متصور ہوا کرتے تھے لیکن اس وقت ان کا خیال ہے کہ عمران خان اگلے انتخابات میں شکست کھا جائیں گے کیونکہ نہ تو وہ اچھی گورننس دے پائے ہیں اور نہ ہی انتخابات سے قبل کیے گئے اپنے وعدوں پر انہوں نے عمل کر کے دکھایا ہے۔
صابر شاکر نے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں مریم نواز ملک کی اگلی وزیر اعظم بنیں گی۔ صابر شاکر کی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے چوہدری غلام (جو مسلم لیگ ن پر تنقید کے حوالے سے جانے جاتے ہیں) نے کہا کہ بالکل مریم نواز اگلی وزیراعظم بن سکتی ہیں۔ صابر شاکر نے مزید کہا کہ مریم نواز کے اگلے انتخابات میں وزیر اعظم بننے کا انحصار خود مریم نواز پر ہے اور اس کے لئے 'حالات میں کچھ تبدیلی' بھی ضروری ہے۔ یہاں ان کی مراد اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مریم اور مسلم لیگ نواز کے تعلقات تھے یا کچھ اور، یہ کہنا مشکل ہے۔ لیکن غالباً ان کا اشارہ اسی جانب تھا۔ یاد رہے کہ مریم نواز فی الحال دس سال کے لئے نااہل ہیں اور گو کہ ان کی اپیل پر وہ اس وقت ضمانت پر ہیں، ان کی نااہلی اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک کہ وہ عدالت سے بری نہ قرار دے دی جائیں۔ ایسے میں صابر شاکر کا یہ کہنا کہ مریم نواز مستقبل میں وزیر اعظم ہو سکتی ہیں بشرطیکہ حالات میں کچھ تبدیلی واقع ہو جائے، انتہائی معنی خیز ہے۔
صابر شاکر نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کی مدت حکومت میں ایک بڑا بریک آئے گا۔ وہ اگلے انتخابات ہاریں گے۔ 2023 کے انتخابات ہارنے کے بعد وہ مزید طاقتور لیڈر بن کر ابھریں گے اور اگلے انتخابات میں دوسری مرتبہ وزیر اعظم بن جائیں گے۔
صابر شاکر نے کہا کہ یہ ان کی پہلی اننگز ہے جس میں وہ کھیلنا سیکھ رہے ہیں۔ اس دفعہ وہ ہاریں گے مگر اگلی مرتبہ مزید طاقت سے دوبارہ آئیں گے اور جیتیں گے۔
دوسری جانب ایک اور سینیئر صحافی عارف حمید بھٹی جو پاکستان تحریک انصاف کو پسند کرنے والے صحافیوں میں شمار کیے جاتے تھے نے کہا کہ یہ بطور وزیر اعظم عمران خان کی پہلی اور آخری اننگز ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مریم نواز پاکستان کی اگلی وزیر اعظم بن سکتی ہیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی ریکارڈ چوتھی مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہو سکتے ہیں۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ ایسا عوام کے ووٹوں کے نتیجے میں نہیں ہوگا۔ ان کا یہ جملہ بھی بہت ہی معنی خیز ہے۔
البتہ چوہدری غلام حسین کا کہنا ہے کہ عمران خان 2023 کے انتخابات جیت جائیں گے۔
صحافی سمیع ابراہیم نے کہا کہ وزیر اعظم اپنی ساکھ کو برقرار رکھ سکتے ہیں اگر وہ عوام کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہو جائیں کہ انہوں نے اکثریت کی بنیاد پر حکومت نہیں بنائی ہے لیکن وہ اتحادیوں کی بلیک میلنگ میں بھی نہیں آئیں گے۔ سمیع ابراہیم کا کہنا تھا اس کے بعد اگر وہ ہار بھی گئے تو ان کی ساکھ برقرار رہے گی۔
تاہم، اس کے بعد انہوں نے وزیر اعظم پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "سیاست کارکردگی کا تقاضا کرتی ہے" اور ابن خلدون جیسے لیکچر دینے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا جب تک کہ حکمرانوں کو اس بھوک کا احساس نہیں ہوتا جس کا عوام سامنا کر رہے ہیں۔
عارف حمید بھٹی نے اس موقع پر کہا کہ سمیع ابراہیم صاحب سیدھا جواب دیں تو سمیع ابراہیم نے کہا کہ اگر عمران خان نے اس طرح حکومت پوری کی کہ پہلے ایک سے اتفاق کر لیں، پھر دوسرے سے اتفاق کر لیں، ایک فیصلہ کر کے اسے واپس لے لیں، تو پھر یہ ان کی آخری حکومت ہے۔
اس بات پر مداخلت کرتے ہوئے غلام حسین نے کہا کہ سیدھی طرح اپنی بات کریں۔ جس پر بالآخر سمیع ابراہیم نے کہا کہ اگر ہم ان کی موجودہ کارکردگی کی بنیاد پر بات کریں تو عمران خان دوبارہ وزیر اعظم نہیں بن سکتے۔
پاکستان میں گذشتہ چند روز سے سیاسی منجدھار میں کوئی طغیانی نہیں آئی۔ حیرت کی بات ہے کہ ایک ایسے وقت میں کہ جب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ مر نہیں بھی چکی تو کم از کم اس میں زندگی کی کوئی رمق موجود نہیں ہے، شہباز شریف کا نام عدالتی حکم کے باوجود ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا جا چکا ہے، مریم نواز جن کے بارے میں کچھ دن قبل کہا جا رہا تھا کہ وہ خاموش ہو گئی ہیں اتوار کو ایک بار پھر میاں جاوید لطیف کے حلقے میں جا کر ان کے لئے ریلیاں نکالتی نظر آئیں، یہ صحافی کہہ رہے ہیں کہ مسلم لیگ نواز کے لئے حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔ کچھ روز قبل صابر شاکر یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ عمران خان اسمبلی توڑ دیں گے اور یہ حکومت مدت پوری نہیں کرے گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ نواز کی پنجاب میں مقبولیت ایسی ہے کہ وہ اگلے انتخابات میں ایک بڑی طاقت بن کر ابھر سکتی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ عمران خان کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ لیکن ان تمام تر نااہلیوں اور پابندیوں کے باوجود مریم نواز یا نواز شریف کے وزیر اعظم بننے کی بات یا تو بہت دور کی کوڑی ہیں یا پھر ان صحافیوں کے پاس کچھ ایسی معلومات ہیں جن سے عوام فی الحال ناواقف ہیں۔