(پہلے انسان ایکٹوسٹ بنتا ہے اور بعد میں ایکٹر)
یہ زبیر بلوچ کا میرے ساتھ پہلا مکالمہ تھا۔ بات ہے 1996 کی۔ لاہور گلبرگ میں جہاں آج کل چین ون نامی برانڈ کا آوٹ لیٹ ہے حفیظ سینٹر کے عین پیچھے وہاں گوئٹے انسٹی ٹیوٹ ہوا کرتا تھا۔ پنجاب لوک راہس کے ناٹک "ڈکیت "کی ریہرسل جاری تھی جسے پنجابی تھیٹر کے امام اعظم اور ہمارے گرو لخت پاشا جنہیں عرف عام میں سخت پاشا بھی کہا کرتے تھے نے لکھا تھا۔ لیکن بلوچ سے ملنے کے بعد پتہ چلا کہ سخت ہوتا کیا ہے ۔ہم پی ٹی وی جنریشن تھے اسی اور نوے کی دہائی میں پی ٹی وی ایکٹرز کی شکل و صورت سے خوب واقف تھے۔ بلوچ کو اکثر ٹی وی ڈراموں میں دیکھا تھا وہ بہت بارعب کرداروں میں نظر آتے تھے. خاص طور پر بیوروکریٹ کا کردار تو خوب نبھاتے۔ میں گھر سے کچھ اور بننے نکلا تھا، گھر گیا ناٹک منڈلی والوں میں اور گھرا بھی ایسا کہ مجھے دھکے بھی دیتے تو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔
ایکٹنگ خاص طور پر تھیٹر کی الف ب کا بھی پتہ نہیں تھا تب تک تھیٹر میں جگتیں شروع ہو چکی تھیں۔نرگس یا خوشبو کے ڈانس کا دور شروع نہیں ہوا تھا۔ قصہ مختصر کہ ایک علامتی ناٹک میں جو پنجابی زبان کے سرائیکی لہجہ میں لکھا گیا تھا مجھے اس میں"ڈیاچ ڈکیت" کا کردار ادا کرنا تھا۔ سکرپٹ بہت اچھی طرح پڑھ کر مکالمے یاد کر رکھے تھے ۔ریڈیو مدر انسٹی ٹیوٹ تھا تو سٹریس اور پاز کا بھی اندازہ تھا ۔لیکن ریہرسل کے دوران جیسے ہی میری انٹری ہوئی میں نے بایاں بازو آگے بڑھایا تو سامنے کرسی پر بیٹھا بلوچ شیر کی طرح گرجا ۔اسکی رعب دار آواز سے مجھ چھ فٹے نوجوانوں کی ٹانگیں لرز گئیں،مجھے سمجھ نہیں آئی میں نے کیا غلط کر دیا۔ ساتھی اداکاروں میں سے کسی کی جرات نہ تھی کہ اتنا ہی کہتا کہ پہلا دن ہے اتنی سختی نہ کرو، بھاگ ہی نہ جائے۔لیکن یہ منڈلی ایسے دیوانوں اور مستانوں کی تھی جو اس میں ایک بار آ جاتا آسانی سے نہیں جاتا تھا۔ مجھے بلوچ کا لہجہ اور انداز بہت برا لگا۔ جیسے تیسے ریہرسل ختم ہوگئی۔ شمسہ جو بلوچ کی اسسٹنٹ تھیں نے مجھے ایک طرف لے جا کر سمجھانے کی کوشش کی کہ بلوچ سخت طبیعت کا مالک ہے لیکن دل کا بہت اچھا ہے۔ ریہرسل کے بعد بلوچ نے بتایا کہ میں ابھی (جو مجھے ہمیشہ کے لئے لگا) اس قابل نہیں ہوں کہ یہ کردار کر سکوں۔ میں بہت ہارا ہارا سا بس سٹاپ کی طرف جا رہا تھا اور سوچ رہا تھا "کل سے ریہرسل پر آؤں نہ آؤں۔ لیکن آنا تو پڑے گا گرو کا حکم جو تھا " پیچھے سے اسی ماڈل سفید کرولا نے ہار ن دیا ۔پیس سپر سٹور کی نکڑ پر بلوچ نے گاڑی روکی مجھے بٹھایا اور پوچھا
"چاء پیٔیں گا "
یہ اس البیلے اور سخت گیر استاد کے ساتھ پہلی باضابطہ نشست تھی۔ اگرچہ میں تھیٹر کا اچھا اداکار کبھی نہ بن سکا لیکن طمانیت بخش احساس یہ تھا اور ابتک ہے کہ اصل میں تو ہم سب ایک تحریک کا حصہ تھے ۔ایک ایسے وقت کی تحریک کا حصہ جب قلم اور بیان پر شدید پہرہ تھا۔ جب سوشل میڈیا جیسے آوٹ لیٹ موجود نہیں تھے۔ پی ٹی وی اور ریڈیو پر ایک خاص نظریہ کا قبضہ تھا اسوقت میں زبیر خان بلوچ جیسے اساتذہ نے متبادل بیانیہ کا دیا جلائے رکھا۔
یہ دیوانوں کی دنیا تھی جس میں خواب دکھائے جاتے تھے اور ان خوابوں میں سے بہت سے خوابوں کی ڈائریکشن بلوچ دیا کرتا تھا ۔ کوئی بھی پیسے یا کسی مادی فائدہ کے لئے کئی کئی گھنٹے جانفشانی سے محنت نہیں کرتا تھا ۔دیوانوں کا یہ جتھہ تو خوابوں کی تعبیر پانا چاہتا تھا ۔پاشی (لخت پاشا)اور نجم حسیں سید کے شاہکار خوابوں کو بلوچ کی ہدایتکاری نے مجسم کیا۔ مقتدر حلقوں اور مقدس گائیوں کی خوب خوب بھد اڑائی۔ تخت لہور،ہنیرے دا پندھ ،کہانی والی چڑی دی وار،جلوس ،اکھیاں اور بتی دھاراں ۔زبیر خان بلوچ نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ جب کسی عمارت سے سامنا ہو تو نظر اسکے گنبدوں اور میناروں پر جاتی ہے لیکن ان اینٹوں کا ذکر شاذ و نادر ہی ہوتا ہے جن پر بنیاد رکھی جاتی ہے ۔وہ خود بھی ایسا ہی تھا ۔بنیاد کے لئے خود کو والنٹیر کرنے والا ۔ 28 ویں روزہ کی شب جب قوم صبح عید ہو گی یا روزہ والے مخمصہ میں مبتلا تھی ۔ہم چاہنے والوں کے لئے خبر آئی کہ صبح عید ہو ہی نہیں سکتی۔کیونکہ بلوچ داغ مفارقت دے گیا ہے۔