چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ متاثرین کے اہلخانہ احتجاج کر رہے ہیں، معاملہ کابینہ کو بھجوایا گیا مگر کچھ نہ ہوا۔ عدالتی معاون فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ ایسے کیسز موجود ہیں جن میں ریاست جبری گمشدگیوں میں ملوث ہے۔ اکثر کیسز میں مسنگ پرسنز حراستی مراکز میں رکھے گئے، کیونکہ جبری گمشدگیاں ریاستی پالیسی تھی اور پٹیشنر کہتے ہیں کہ وہ اٹھا کر لے گئے، وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس نہیں، عدالت کیا کرے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر بنیادی حقوق کا معاملہ ہو اور ریاست ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہے تو عدالت اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔
وکیل کرنل انعام الرحیم نے عدالت کو بتایا کہ ایسے واقعات بھی ہیں کہ مسنگ پرسنز کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کرکے سزائے موت دی گئی جس پر چیف جسٹس نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ لاپتہ افراد تو نہ ہوئے، ان کو گرفتار کرکے کارروائی کی گئی۔
کرنل انعام نے عدالت کو بتایا کہ وہ لوگ لاپتہ تھے جن کے بارے میں بیان حلفی دیا گیا کہ وہ ایجنسیوں کے پاس نہیں اور کافی عرصہ بعد پتہ چلا کہ وہ تحویل میں تھے اور ان سویلینز کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی گئی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ چیزوں کو مکس نہ کریں، جب ان کا ٹرائل ہوا تو وہ لاپتہ نہ رہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ بے بس عدالت نہیں کہ صرف پٹیشن کی استدعا کو دیکھے، دیگر چیزیں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ عدالت نے کیس کی سماعت 27 مئی تک ملتوی کردی۔