منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوگا، آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ

01:21 PM, 17 May, 2022

نیا دور
سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلے میں کہا ہے کہ منحرف رکن اسمبلی کا پارٹی پالیسی کے برخلاف دیا گیا ووٹ شمار نہیں ہوگا جبکہ تاحیات نااہلی یا نااہلی کے معیاد کا تعین پارلیمان کرے۔

فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ تین دو کی اکثریت سے فیصلہ سنایا جاتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے اختلافی نوٹ لکھے جب کہ چیف جسٹس، جسٹس اعجازالاحسن ، جسٹس منیب اختر نے اکثریتی رائے دی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صدارتی ریفرنس نمٹایا جاتا ہے۔ سوال تھا کہ منحرف رکن کا ووٹ کاسٹ ہو یا نہیں؟ آرٹیکل 63 اے اکیلا پڑھا نہیں جا سکتا۔ آرٹیکل 63 اے اور آرٹیکل 17 سیاسی جماعتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے ہے۔ سیاسی جماعتوں میں استحکام لازم ہے، اس سے انحراف کینسر ہے۔ انحراف سیاسی جماعتوں کو غیر مستحکم اور پارلیمانی جمہوریت کو ڈی ریل بھی کر سکتا ہے۔ منحرف رکن کا ووٹ کاسٹ نہیں ہو سکتا۔

سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کا سوال واپس بھیج دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ریفرنس میں انحراف پر نااہلی کا سوال بھی پوچھا گیا۔ انحراف پر نااہلی کے لئے قانون سازی کا درست وقت یہی ہے۔ ریفرنس میں پوچھا گیا چوتھا سوال واپس بھیجا جاتا ہے۔ یوں سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کی درخواستیں خارج کر دیں اور منحرف ارکان تاحیات نااہلی سے بچ گئے۔

تفصیل کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صدارتی ریفرنس پر کافی سماعتیں ہو چکی ہیں۔ آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعت کے حقوق کی بات کرتا ہے۔ آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی پر دو فریقین سامنے آئے ہیں۔ ایک وہ جو انحراف کرتے ہیں، دوسرا فریق سیاسی جماعت ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مارچ میں صدارتی ریفرنس آیا۔ تکنیکی معاملات پر زور نہ ڈالیں۔ صدارتی ریفرنس کے قابل سماعت ہونے سے معاملہ کافی آگے نکل چکا ہے۔ ڈیرھ ماہ سے صدارتی ریفرنس کو سن رہے ہیں۔

اس پر اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کا کہنا تھا کہ یہ تکنیکی نہیں آئینی معاملہ ہے۔ عدالتی آبزرویشنز سے اتفاق نہیں لیکن سرتسلیم خم کرتا ہوں۔ عدالت نے رکن اور سیاسی جماعت کے حقوق کو بھی دیکھنا ہے۔ انحراف پر رکن کے خلاف کاروائی کا طریقہ کار آرٹیکل 63 اے میں موجود ہے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت انحراف پر اپیلیں عدالت عظمیٰ میں آئیں گی۔ صدر مملکت کے ریفرنس پر رائے دینے سے اپیلوں کی کارروائی پر اثر پڑے گا۔ آرٹیکل 63 اے کے انحراف سے رکن خود بخود ڈی سیٹ نہیں ہو جاتا۔ انحراف کرنے سے رکن کو شوکاز نوٹس سے وضاحت مانگی جاتی ہے۔ سربراہ وضاحت سے مطمئن نہ ہو تو ریفرنس بھیج سکتا ہے۔

خیال رہے کہ 21 مارچ 2022ء کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیراعظم کے مشورے پر آئین کے آرٹیکل 63 اے کے اغراض ومقاصد، اس کی وسعت اور دیگر متعلقہ امور پر سپریم کورٹ کی رائے طلب کرتے ہوئے صدارتی ریفرنس کی منظوری دی تھی۔

آئین کی روح کو مدِنظر رکھتے ہوئے انحراف کی لعنت کو روکنے اور انتخابی عمل کی شفافیت، جمہوری احتساب کے لیے آرٹیکل 63 اے کی کون سی تشریح قابل قبول ہوگی:

1: ایسی تشریح جو انحراف کی صورت میں مقررہ طریقہ کار کے مطابق رکن کو ڈی سیٹ کرنے کے سوا کسی پیشگی کارروائی مثلاً کسی قسم کی پابندی یا نئے سرے سے الیکشن لڑنے سے روکنے کی اجازت نہیں دیتی۔

2:وہ مضبوط بامعنی تشریح جو اس طرح کے آئینی طور پر ممنوع عمل میں ملوث رکن کو تاحیات نااہل کر کے منحرف ووٹ کے اثرات کو بے اثر کر کے اس طرزِ عمل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔

کیا ایک رکن جو آئینی طور پر ممنوع اور اخلاقی طور پر قابل مذمت حرکت میں ملوث ہو اس کا ووٹ شمار کیا جائے گا یا اس طرح کے ووٹوں کو خارج کیا جاسکتا ہے؟

کیا وہ رکن جو اپنے ضمیر کی آواز سن کر اسمبلی کی نشست سے مستعفی نہیں ہوتا اور انحراف کا مرتکب ہو جسے ایماندار، نیک اور سمجھدار نہیں سمجھا جاسکتا وہ تاحیات نااہل ہوگا؟

موجودہ آئینی اور قانونی ڈھانچے میں فلور کراسنگ، ووٹوں کی خرید و فروخت روکنے کے لیے کون سے اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں۔

آرٹیکل 63 اے کے مطابق کسی رکن پارلیمنٹ کو انحراف کی بنیاد پر نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر پارلیمنٹیرین، وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کے انتخابات کے لئے اپنی پارلیمانی پارٹی کی طرف سے جاری کردہ کسی بھی ہدایت کے خلاف ووٹ دیتا ہے یا عدم اعتماد کا ووٹ دینے سے باز رہتا ہے تو اس سے نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔

آرٹیکل 63 اے میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں پارٹی سربراہ کو تحریری طور پر اعلان کرنا ہوگا کہ متعلقہ رکن اسمبلی منحرف ہوگیا ہے لیکن اعلان کرنے سے قبل پارٹی سربراہ 'منحرف رکن کو وضاحت دینے کا موقع فراہم کرے گا۔

اراکین کو ان کی وجوہات بیان کرنے کا موقع دینے کے بعد پارٹی سربراہ اعلامیہ اسپیکر کو بھیجے گا اور وہ اعلامیہ چیف الیکشن کمشنر کو بھیجے گا۔ بعد ازاں چیف الیکشن کمیشن کے پاس اعلان کی تصدیق کے لیے 30 روز ہوں گے۔

آئین کے اس آرٹیکل کے مطابق اگر چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے تصدیق ہو جاتی ہے، تو مذکورہ رکن 'ایوان کا حصہ نہیں رہے گا اور اس کی نشست خالی ہو جائے گی۔

 
مزیدخبریں