نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں صدارتی ریفرنس کے معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 186 میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ اگر صدر پاکستان کسی بھی معاملے پر چاہیں تو وہ سپریم کورٹ کی رائے لے سکتے ہیں۔ اب اگر سپریم کورٹ کسی معاملے پر رائے دیتی ہے تو رائے لینے والا اس چیز کا پابند نہیں ہے کہ وہ اس پر عمل کرے۔ یہ چیز آئین میں واضح طور پر لکھی ہوئی ہے۔
عرفان قادر کا کہنا تھا کہ حکومت پر اس رائے کی پابندی کسی طور پر لازم نہیں ہے۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ سپریم کورٹ نے جو رائے دی ہے وہ آئین سے مطابقت بھی رکھتی ہے یا نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ آئین میں یہ کہیں درج نہیں کہ جو منحرف اراکین ہیں، ان کا ووٹ شمار نہیں کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس ضوالے سے سپریم کورٹ کا یہ کہہ دینا کہ منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہیں ہوگا، آئین میں ترمیم کے مترادف ہے جو کہ وہ نہیں کر سکتی۔ جہاں تک پنجاب حکومت کی بات ہے تو سپریم کورٹ کی رائے کا اثر ہرگز وہاں نہیں پڑے گا۔
انہوں نے اپنی قانونی رائے دیتے ہوئے کہا کہ جب صدر پاکستان نے سپریم کورٹ کو یہ ریفرنس بھیجا تھا، اس وقت حکومت کی کوشش یہ تھی کہ آرٹیکل 63 اے کا سہارا لے کر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کو روک دیا جائے۔ اس کے بعد ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے بھی اس کو روکنے کی کوشش کی تو خود سپریم کورٹ نے ان کے اس اقدام کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیدیا تھا۔
سابق اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس تناظر میں آج تک کسی نے بات ہی نہیں کی کہ اب حکومت تبدیل ہو چکی ہے تو وزیراعظم صدر مملکت کو مشورہ دے سکتے ہیں کہ ہم اس رائے کو کسی صورت نہیں مانیں گے تو یہ معاملہ وہیں پر ختم ہو جائے گا۔ اس کا پنجاب یا وفاقی حکومت پر قطعی کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ کہنا کسی صورت درست نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کی رائے کے بعد پنجاب حکومت ختم ہو جائے گی کیونکہ منحرف اراکین کی پروسیڈنگز الیکشن کمیشن کے سامنے ہے۔ حتمی فیصلہ وہیں ہوگا اور اس کے بعد اسے سپریم کورٹ میں واپس جانا ہے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے عرفان قادر کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں سپریم کورٹ نہیں بلکہ کابینہ کی رائے کو حتمی سمجھا جائے گا۔ جن لوگوں کی حکومت جا چکی ہے، وہ اس وقت الیکشن کمیشن کے سامنے ایک فریق کی حیثیت سے ہیں۔