نیا دور کے پروگرام میں صحافی حسن نقوی کوخصوصی انٹرویو دسے بات کرتے ہوئے میجر ریٹائرڈخرم حمید روکھڑی نے کہا کہ جب انسان یہ سوچ لے کہ پورے پاکستان میں میں فرد واحد ہوں اور میرے ساتھ کھڑے ہونا عزت کی جبکہ کسی اور کے ساتھ کھڑا ہونا جرم کی بات ہے تو مسئلہ وہاں آتا ہے۔ جب ایک شخص باقیوں کی نفی کرتا ہوا اپنی تمام خواہشات کو مانگنا شروع کر دے۔
ماضی میں دیکھا جائے تو عمران خان کی سٹریٹیجی تھی کہ وہ ایک ادارے میں اپنا من پسند شخص 'جنرل فیض حمید' کو لانا چاہتا تھا جس کے لیے اس نے تمام کارروائیاں کی۔
خرم حمید روکھڑی، جنہیں عمران خان کا قریبی ساتھی کہا جاتا تھا، نے کہا کہ لوگوں کے ذہنوں میں عمران خان کا کردار ایسا تھا کہ یہ بہت مہذب، صابر اور معاملات کو سمجھ کر حلکرنے والا ایک زیرک شخص ہے لیکن تین دنوں میں جو کچھ ہوا اس نے عمران خان کا چہرہ بے نقاب کردیا۔ ان تین دنوں میں پاکستان میں جو ہو چکا ہے۔ امن و امان کی صورتحال بگڑگئی۔عمران خان نے اپنی جماعت کا تصور ہی ختم کر دیا اور ان کو ایک نئے راستے پر ڈالا جو اس کی اصل خواہش تھی۔ جب پی ٹی آئی چیئرمین سماعت کے لیے سپریم کورٹ آئے تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ پی ٹی آئی مظاہرین کی پرتشدد کارروائیوں کی مذمت کریں تو اس کو کوئی شرمندگی نہیں تھی بلکہ وہ بہت مطمئن تھا کہ لوگوں نے ان کے لیے بہت اچھا کام کیا۔ جب قوموں کے رہنما یہ کام کرنے لگیں تو اس میں ان کی پارٹی کی بھی تنزلی ہوتی ہے بلکہ وہ عوام کو معاشرے کے لیے عذاب بنا دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بارہا کہہ چکا ہوں یہ عوام کو کسی اور راستے پر ڈال کر لڑوانا چاہتا ہے۔ ہم شام یا افغانستان بننے کے متحمل نہیں ہیں۔
ہمارے ہمسائے ممالک میں افغانستان، ایران، چین، اور بھارت میں سے کسی ایک ملک میں بھی ایسا کرنے کی کسی کی جرات نہیں ہوئی جو عمران خان نے پاکستان کے ساتھ تین دن میں کیا۔
صحافی حسن نقوی نے سوال کیا کہ عمران خان کی 'لانگ ٹرم سٹریٹیجی' کیا ہے جس پر خرم حمید روکھڑی نے کہا کہ عمران خان کی سٹریٹیجی صرف دنگا فساد ہے۔ وہ بس چاہتا ہے کہ کسی طرح واپس اقتدار میں آجائے۔ ایک اچھے حکمران کے لیے ایک سال بھی بہت ہوتا ہیں۔ ان کو قریب قریب 4 سال ملے لیکن ان سالوں میں بھی اس ملک میں عثمان بزدار اور فرح گوگی جیسا گند مچا رہا۔ عمران خان واپس اقتدار میں آنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔ پچھلے تین دنوں میں اس نے واضح کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے مشتعل مظاہرین کی جانب سے جو شہدا کی تصویریں جلائی گئیں، ان کے گھروں میں توڑ پھوڑ کی گئی، آگ لگائی املاک کو نقصان پہنچایاگیا ، تھانے جلائے گئے، سیشن کورٹ جلایا گیا لیکن عمران خان نے کسی ایک جگہ بھی اس کی مذمت نہیں کی۔
ایک اور سوال کے جواب میں خرم حمید روکھڑی نے کہا کہ ریاست اور عوام دونوں اس چیز کو بھگت رہے ہیں۔ عمران خان کو عدالتوں سے ریلیف مل رہا ہے۔ ان چند دنوں میں سب کے رنگ کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ اب کچھ بھی مبہم نہیں ہے، یہاں کیا ہو رہا ہے سب واضح ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک کو بہت بڑی سطح کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، ان کے بیٹے کی لیک ہونے والی آڈیوز سے ثابت ہو گیا کہ کون کہاں بیٹھا کس کے لیے کیا کر رہا ہے۔ کہیں نہ کہیں کسی صورت میں فیض حمید کا جو نیکسس تھا وہ کام تو کررہا ہے۔ اب پہلے جتنی طاقت اور اثر نہیں رہا لیکن پھر بھی چل رہا ہے۔ یہ اپنی کوششیں بند نہیں کریں گے لیکن ان کا اثر کمزور ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فیض حمید کے خلاف کارروائی ضرور ہونی چاہیے۔ عدالت میں جانا چاہیے بلکہ میڈیا والوں کو اس شخص سے انٹرویو کرنا چاہیے اور پوچھنا چاہیے کہ یہ سب چل رہا تمہارے بارے میں۔ اپنی رائے دو، اپنے اعمال کا کیسے دفاٰع کرنے ہو؟ کچھ لائنز ایسی ہیں جن کو کراس نہیں کرنے دینا چاہیے۔ یہ زیادتی ہے کہ کسی اور نے عسکری اداروں کے بارے میں ایسی باتیں کی ہوتی تو کارروائی ضرور ہوتی۔
عمران خان کے خلاف جو کیس ہے اس کو انہیں فیس کرنا چاہیے۔ ضمانت لینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر یہ سچا ہے تو اس کی وکیلوں کی ٹیم اس کو وہاں سے نکالے۔ ضمانتیں لینے کا اس سے بڑا ریکارڈ تو کسی نے قائم نہیں کیا ہو گا۔ اس کو تو اس جرم کی بھی ضمانت مل جاتی ہے جو ابھی اس نے کرنا ہو۔ اسے پتا ہے کہ جس دن کیس فیس کیے جرم ثاب ہو جائے گا۔ اسی لیے عدالتوں میں پیش نہیں ہوتا۔
یہ ایک اور غلط مثال قائم کی جارہی ہے کہ گرفتاری سے بچنے کے لیے عوام کو اکٹھا کر لو اور اس انسانی شیلڈ کے پیچھے چھپ کر بیٹھ جاو۔ لیڈرشپ کی جتنی بھی خصوصیات تھیں سب ختم کر دیں۔ عمران خان نارمل انسان نہیں ہے۔ اس کا میڈیکل چیک اپ ہونا چاہیے۔ اس کی ضد کا یہ علاج تو نہیں کہ ملک توڑ دی جائے۔ سب ادارے بند کر کے چابیاں اس کو تھما دیں کہ اب ملک چلا لو۔
ملک کے صورتحال بہت پریشان کن ہے۔کسی کو یہ پرواہ نہیں کہ دو پیڑھیاں باہ ہو چکی ہیں۔ 25 سال اور اس سے کم عمرکے نوجوان کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔ ان کے مستقبل کی کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔ ہمیں معاشی طور پر اپنا ملک مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں چینٹرل ایشیئن ملکوں کے ساتھ تجارت کی ضرورت ہے۔ عمران خان کے دھرنوں کی نہیں۔ ان کی زندگی تو عیش میں ہے ان کے بچوں کی زندگی بھی پرتعیش ہے۔ مسئلے تو غریب عوام کے ہیں۔ خود تو یہ یہاں سے نکل کے اپنے بچوں کے ساتھ چلا جائے گا۔ جن بچوں سے تھانے جلوائے، توڑ پھوڑ کروائی، ان کو پولیس تو نہیں چھوڑے گی۔ ان پر دہشتگردی کے پرچے ہوں گے۔ ان کی زندگیاں، کیریئر تباہ ہو جائے گا۔