سپریم کورٹ نے فیصل واؤڈا کی پریس کانفرنس پر ازخود نوٹس لے لیا

فیصل واؤڈا نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ عدلیہ میں مداخلت کا ثبوت ہے تو پیش کریں ورنہ ابہام بڑھ رہا ہے۔ شواہد یا ثبوت کے بغیر عدالت کارروائی نہیں کرتی۔میری پگڑیاں اچھالی گئیں اب پاکستان کی پگڑی جو اچھالے گا ان کی پگڑیوں کا فٹ بال بنائیں گے۔

11:04 AM, 17 May, 2024

نیا دور

سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس کا ازخود نوٹس لے لیا۔ ازخود نوٹس کیس کی سماعت آج ہو گی۔

سپریم کورٹ نے گزشتہ روز فیصل واؤڈا کی پریس کانفرنس کا نوٹس لیا۔  چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرے گا۔ جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس نعیم اختر بھی بنچ کا حصہ ہوں گے۔

واضح رہے کہ دو روز قبل فیصل واؤڈا نے پریس کانفرنس کر کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ نیب ترامیم کیس کی سماعت کے دوران بھی فیصل واؤڈا کی پریس کانفرنس کا ذکر ہوا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا کر برہمی کا اظہار کیا تھا۔

فیصل واؤڈا نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ عدلیہ میں مداخلت کا ثبوت ہے تو پیش کریں ورنہ ابہام بڑھ رہا ہے۔ شواہد یا ثبوت کے بغیر عدالت کارروائی نہیں کرتی۔میری پگڑیاں اچھالی گئیں اب پاکستان کی پگڑی جو اچھالے گا ان کی پگڑیوں کا فٹ بال بنائیں گے۔ اداروں کو نشانہ بنانا بند کریں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ سیاستدان اگر دہری شہریت نہیں رکھ سکتا تو جج کیسے دہری شہریت کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ جسٹس منصور شاہ اور جسٹس عائشہ احد کے سامنے بیٹھ کر آپ کا سینہ چوڑا ہو جاتا ہے۔ اطہر من اللہ بہت اصول پسند آدمی ہیں۔ وہ نہ حماقت کرتے ہیں نہ کرنے دیں گے۔

فیصل واؤڈا کا کہنا تھا کہ میرا گمان ہے جسٹس اطہر من اللہ کسی سے نہیں ڈرتے، نہ کسی سے ملتے ہیں۔ وہ کسی سیاسی جماعت کے نمائندے سے بھی نہیں ملتے۔ وہ شہ سرخیوں کیلئے فیصلہ نہیں کرتے، رات کے اندھیروں میں کسی سے نہیں ملتے، اطہر من اللہ جیسے تاریخی جج سے ایسی غلطی نہیں ہو سکتی۔ بہت کچھ جانتا ہوں۔ بہت کچھ سمجھتا ہوں۔ راز ہیں۔ شواہد ہیں اور میرا ہوم ورک ہے۔

فیصل واؤڈا نے کہا کہ چھٹی کے دن جسٹس بابر ستار کی جانب سے پریس ریلیز آتی ہے۔  30 اپریل کو میں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو خط لکھا۔ جج بننے سے پہلے جسٹس بابر ستار نے اس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو رپورٹ کیا۔ اس کی کوئی قانونی چیز ہو گی جو ہمیں نہیں مل رہی۔

انہوں نے کہا آرٹیکل 19 اے کے تحت ہر پاکستانی انفارمیشن لے سکتا ہے مگر نہیں دی جا رہی جس کی وجہ سے ابہام بڑھ رہا ہے اور ایک سال پہلے کیوں یہ سب نہیں بتایا گیا۔ اب شواہد دینا پڑیں گے۔ اگر معاملہ جج بننے سے پہلے کا ہے اور ریکارڈ نہیں ہے تو پھر سوالات ہوں گے۔

مزیدخبریں