یہ بات زیادہ باعث اضطراب و تکلیف دہ نہیں تھی کہ رابی پیرزادہ کی یہ ویڈیوز اصل بھی ہیں یا جعلی؟ کیونکہ ایک روز قبل تک اُن کی جانب سے دوٹوک الفاظ میں تصدیق نہیں ہوئی مگر سماجی رابطہ کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر آخری پیغامات میں ویڈیو لیکس معاملے پر جس اشارہ کنایے میں انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے، بالکل واضح تھا کہ وہ نادم بھی ہیں اور التجایہ انداز میں شکوہ کناں بھی۔
کہتی ہیں کہ ”جو بندہ دنیا میں کسی بندے کی پردہ پوشی کرے گا اللہ عزوجل قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا“۔ کہتی ہیں کہ ”میں رابی پیرزادہ شوبز سے کنارہ کشی اختیار کرتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ میرے گناہوں کو معاف کرے اور میرے حق میں لوگوں کا دل نرم کرے“۔
رابی اپنی زندگی میں نئے سفر کیلئے فن پاروں کی تخلیق کرنے کا انتخاب بھی کرچکی ہیں۔
اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ کسی نے اُن کو سربازار تماشہ بنا دینے کیلئے جان بوجھ کر ان کی ذاتی نوعیت کی ویڈیوز کو لیک کیا۔ ویسے بھی اب رابی پیرزادہ کی جانب سے مختلف پیغامات سامنے آنے کے بعد تو جواز ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہم اپنی ہی اُس پاکستانی خاتون کو جسے دنیا بھی جانتی ہے، کی اس طرح وقتی دلی تسکین کیلئے کردارکشی کریں۔
اگر یہ پیغامات سامنے نہ بھی آتے تب بھی بحیثیت مسلمان ہمیں ان ویڈیوز پر سوالات کرنے اور جوابات تلاش کی قطعی اجازت نہ تھی۔ ویڈیوز میں خباثت اُس وقت تک نہ تھی جب تک وہ منظرعام پر نہیں آئی تھیں۔ شیئر در شیئر کر کے اُس میں خباثت ہم نے پیدا کی اور دنیا میں اپنے ہی ہاتھوں اپنی عزت کا دیوالیہ بنا ڈالا۔ خدارا اُس خاتون پر نہیں تو اپنے حال پر ہی رحم کیجیے۔ ہمیں اسلامی تعلیمات تلقین کرتی ہیں کہ اپنا مزاج ایسا بنانا چاہیے کہ ہم دوسروں کے عیوب کو جگہ جگہ نہ بتاتے پھریں۔ ہمیں عیب گوئی سے بھی شریعت منع کرتی ہے اور عیب جوئی سے بھی۔
سورۃ الحجرات میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اے ایمان والو! زیادہ گمانوں سے بچا کرو بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں اور (کسی کے عیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی بُرائی کیا کرو۔
صحیح مسلم کی حدیث نبوی ﷺ ہے کہ جو بندہ دنیا میں کسی بندے کے عیب چھپائے گا قیامت کے دن اللہ اس کے عیب چھپائے گا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عیب جوئی کے متعلق فرمایا کہ بے شک لوگ عموماً عیب سے خالی نہیں، پس کسی کے پوشیدہ عیب ظاہر نہ کرو، ان کا فیصلہ اللہ کے اختیار میں ہے، وہ اگر چاہے گا تو معاف فرما دے گا اور جہاں تک تجھ سے ہو سکے لوگوں کے عیب چھپائے رکھ تاکہ اللہ تعالیٰ تیرے وہ عیب جن کو تُو چھپانا چاہتا ہے، پوشیدہ رکھے۔
اگر ہم اپنے اندر جھانک لیں تو شاید سب پاکباز اور متقی پرہیزگار لگنے لگیں اور دنیا بھر کے سارے عیب اپنے اندر سے باہر چھلکتے نظر آنے لگیں۔ میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
بُرے بندے نوں لبھن ٹریا تے بُرا نہ لبھا کوئی
جد میں اندر جھاتی پائی میرے توں بُرا نہ کوئی
کتنی تعجب کی بات ہے کہ ہم دوسروں کو شرم و حیا کی تلقین تو کر رہے ہیں۔ اپنی زبان، آنکھوں، دماغ اور دل سے غلاظت نکالنے کو تیار نہیں۔ رابی کی ویڈیوز کو لے کر جو احباب مسلسل کردار کشی کر رہے ہیں اُنہیں کم ازکم فراغت میں ایک لمحہ کیلئے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ کچھ حرکات اُن کی بھی ایسی ضرور ہوں گی جن کی عکس بندی کر کے پبلک کر دیا جائے تو شاید اُن کی عملی زندگی منجمد ہو کر رہ جائے۔
ذرا ایک لمحہ کے لئے یہ بھی سوچیے کہ اپنی بہن، بیٹیوں کے ہوتے ہوئے ہم کسی کی بہن بیٹی کی پردہ داری کیوں نہیں کر سکتے؟ کیا عزت صرف اپنی اور اپنے گھر والوں تک ہی ہماری محدود سوچ کا محور ہے۔ کیا ہم نے ”مکافات عمل“ کا مطلب جاننے کی کوشش کی ہے کبھی؟
آزاد خیال دکھنے والی رابی پیرزادہ وہ پاکستانی ہیں جو سوشل میڈیا پر بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان کی آواز بنیں۔ کشمیروں کے حق میں آواز بلند کی، عوامی مسائل پر عوام کی آواز بنیں، ریاستوں اداروں کی آواز میں آواز ملائی، حجاب پر بات ہوئی تو اسلامی قدروں کو اُجاگر کیا، کبھی حق بات کہنے سے ہچکچاتی نظر نہیں آئی اور اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ اس میں وہ قوت ہے جو اس معاشرے میں نظر آنے والے نام نہاد اعلیٰ ظرفوں یا دانشوروں میں بھی نہیں۔
ویڈیو لیک معاملے میں ہمارا رویہ اپنی جگہ مگر جو رویہ رابی پیرزادہ کی جانب سے سامنے آیا قابل ستائش نہ کہا جائے تو انصاف نہ ہوگا۔ جس ضبط، ہمت، صبر، خاموشی اور تحمل مزاجی کا مظاہرہ کیا اور تنقید کرنے والوں کو جواباً آڑے ہاتھوں نہیں لیا اور نہ ہی ایک جھوٹ یا سچ چھپانے کیلئے دوسرے جھوٹ کا سہار ا لیا۔ اسے تو سراہا جانا چاہیے تھا مگر کیا کریں سفید کپڑے نظر نہیں بلکہ اُس پر لگا چھوٹا سے کالا دھبا نظر ضرور آتا ہے۔
یہی اس معاشرے کا وطیرہ ہے۔ جہاں بیماری کا یقین دلانے کیلئے مرنا پڑتا ہے، جہاں چلتی ٹرین میں بھونتے شخص کی فوٹیج بنانا اس کی جان بچانے سے زیادہ اہم، جہاں بچوں کو ہوس کا نشانہ بنا کر کوڑا کرکٹ میں پھینک دیا جاتا ہے، ایسے بے حس معاشرے سے بھلا خوف زدہ کیا ہونا؟ جہاں قبروں سے مردے نکال کر اُن کے گوشت سے پیٹ کی بھوک مٹائی جائے، جہاں مرغی پر لڑائی ہو تو خاندان کے خاندان اُجڑ جاتے ہیں، جہاں آج بھی عورت کے ساتھ وہ سلوک روا رکھا جاتا جو زمانہ جاہلیت میں تھا، جہاں ماں باپ سمیت تمام رشتوں کی قدرومنزلت خاک میں مل چکی ہے، جہاں حلال حرام میں تمیز نہیں رہی۔ جہاں مسجد کا رُخ نہ کریں تو غضب ڈھا دیتے ہیں، مسجد جائیں تو تمسخر اڑا دیتے ہیں، یہاں کس کس پر نوحہ لکھا جائے۔
بہرحال رابی کو اللہ نے ایک موقع دیا ہے اور ایسے موقعے قدرت ہر کسی کو روز روز نہیں دیتی۔ ایک طرف ان کے حاسد اور ناقد ہیں دوسری طرف لنڈے کے لبرلز جو دانستہ طور پر اپنے برہنہ بدن پر ”میں بھی رابی ہوں“ لکھ کر مہم سازی میں مصروف ہیں۔ ایک کو نظرانداز کرتے ہوئے دوسرے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے اطوار اپنے مزاج اپنے مثبت رویے سے ثابت کر دیکھائے کہ جو نظر آرہا ہے وہ ہے نہیں اور جو ہے وہ نظر نہیں آ رہا۔ اب کچھ بھی ہو طوفان تھمے یا نہ تھمے مگر رابی پیرزادہ کو اب اس معاشرے کے منفی عناصر کے سامنے ڈٹ جانا چاہیے اور نئی پاکیزہ زندگی جی کر دیکھا دے۔ پھر دیکھیے اسے ایسی عزت و تکریم بھی ملے گی جس کا مزہ شاید اپنی پہلی عملی زندگی میں نہ چکھا ہو۔
یہاں اس بات کا اضافہ کرتا چلوں کہ یہ تحریر تین چار روز پہلے لکھی تھی مگر غیرمتوقع وجوہات کے باعث سلسلہِ اشاعت کسی کو نہ بھیج سکا اور اب رابی پیرزادہ کا پہلا باقاعدہ ویڈیو پیغام بھی منظر عام پر چکا ہے۔ جس میں ان کا کہنا ہے کہ اتنے دن کی خاموشی میں جواب ڈھونڈ رہی تھی، سوچ رہی تھی کہ یہ سزا ہے یا آزمائش؟ اب اللہ کے راستے پر چل پڑی ہوں باقی زندگی اللہ اور رسول پاک ﷺ کی تعلیمات کے مطابق گزاروں گی۔ اب میرا مقصد حیات عاقبت ہے اور مجھے اپنی قبر کی تیاری کرنا ہے۔
اظہار خیال کرتے ہوئے وہ کئی موقع پر آبدیدہ بھی ہو گئیں اور آج یہ ویڈیو پیغام میری رائے کو تقویت دے رہا کہ رابی میں وہ طاقت ہے جو کم کم کو نصیب ہوتی ہے۔ رحیم و کریم اللہ اُن کو ہدایت کے راستے میں لے آیا ہے۔ انہیں چاہیے اپنے ویڈیو پیغام کے مطابق لوگوں کو نہ معاف کرنے کے مؤقف سے ہٹ جائیں اور جو اُن کے لئے باعث اذیت بنے اُن کو بھی معاف کرنے کا اعلان کریں اور جس اللہ انہیں ہدایت دی اُس سے اُن کے لئے بھی ہدایت کی دعا کریں کیونکہ اب معاملہ مقصد حیات اور عاقبت کا ہے۔