چینی تحقیقات: وزیر اعظم اور وزرا نے چینی مافیا کو بچایا: انکوائری میں شریک برطرف افسر سجاد باجوہ

11:59 AM, 17 Nov, 2020

نیا دور
جس وقت چینی کمیشن اور اس سے اٹھنے والے سیاسی مد و جزر کا معاملہ عروج پر تھا تو اسی دوران ایک افسر کا نام شہ سرخیوں کی زینت بنا جو کہ اس وقت کئی الزامات کا سامنا کر کررہے تھے اور ان کے تحت وہ نوکری سے فارغ بھی کر دییے گئے۔ اس وقت حکومت کی جانب سے ایک عمومی تاثر یہ بنایا گیا کہ وہ عمران حکومت کی نیک کاوشوں کی راہ میں رکاوٹ بن کر اس قوم کو لوٹنے والے مافیا کو خفیہ طور پر مدد فراہم کررہے ہیں۔ یہ ایک ایسا الزام تھا جسے انہوں نے ہمیشہ رد کیا تھا۔

تاہم ابا ایک بار پھر بی بی سی کو دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو کے ذریعئے وہ سامنے آئے ہیں اور انہوں نے ایک نیا پینڈورہ باکس کھول دیا ہے۔

یہ افسر  ایف آئی کے ڈپٹی ڈائریکٹر سجاد باجوہ ہیں۔ چینی کمیشن کی تحقیقات کے دوران معطل اور بعد میں انکوائری کے نتیجے میں نوکری سے برطرف ہونے والے ایک افسر نے وزیر اعظم سمیت چند اعلیٰ حکومتی شخصیات پر الزام لگایا ہے کہ انھوں نے شوگر مِل مالکان کو 400 ارب روپے سے زیادہ کا فائدہ پہنچایا۔

انٹیلیجنس بیورو (آئی بی) کی ایک خفیہ رپورٹ کی بنیاد پر ہونے والی انکوائری کے نتیجے میں چینی کمیشن کی تحقیقات کے دوران  شوگر ملز مالکان کے ساتھ نان پروفیشنل تعلقات اور حساس معلومات کے تبادلے  جیسے الزامات ثابت ہونے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈپٹی ڈائریکٹر سجاد مصطفیٰ باجوہ کو نوکری سے برطرف کیا تھا۔

بی بی سی نے لکھا کہ  سجاد مصطفیٰ باجوہ کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف الزامات میں ذرا بھی صداقت نہیں ہے۔ ان کے بقول انھیں نوکری سے ہٹانے کا فیصلہ بہت پہلے ہو چکا تھا اور ان کے خلاف انکوائری تو محض کارروائی کا حصہ تھی۔

ابی بی سی نے ان کے حوالے سے لکھا کہ چینی کمیشن کی انکوائری کے دوران جیسے ہی میں نے چینی کی افغانستان سمگلنگ، چینی کے کاروبار میں سٹیٹ بینک، ایس ای سی پی اور ایف بی آر جیسے اداروں کے کردار کے متعلق سوالات اٹھائے، اسی وقت حکومت میں شامل کچھ طاقتور لوگ میرے خلاف ہو گئے جو نہیں چاہتے تھے کہ میں ان پہلوؤں پر تحقیقات کروں جن سے اس مافیا کو قابو کیا جا سکتا تھا۔

وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب و داخلہ امور مرزا شہزاد اکبر نے سجاد باجوہ کی طرف سے لگائے جانے والے تمام الزامات کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ ان کا یا وزیر اعظم کا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں اور وہ تو سجاد باجوہ کو جانتے بھی نہیں ہیں۔

بی بی سی اردو کے اس تہلکہ خیز انٹرویو کے مطابق سجاد باجوہ نے وزیر اعظم عمران خان، وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان اور مشیر مرزا شہزاد اکبر پر براہ راست الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ شوگر مافیا میں چند طاقتور عناصر کو بچانا اور مالی فائدہ دینا چاہتے تھے اور اُن کے خلاف ہونے والی ’جعلی کارروائی‘ کے پیچھے بھی ان ہی کا ہاتھ تھا۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ تحقیقات شروع ہونے کے بعد سے شوگر مافیا کو اب تک کم و بیش 400 ارب کا براہ راست فائدہ دیا جا چکا ہے کیونکہ اس عرصے کے دوران چینی کی قیمت 70 روپے فی کلو سے بڑھ کر 115 روپے تک پہنچی گئی ہے۔

سجاد باجوہ نے الزام لگایا کہ ان کے خلاف یہ تمام کارروائی کابینہ میں بیٹھے کچھ مخصوص لوگوں کی خواہش پر ہوئی کیونکہ وہ چینی کمیشن سے پہلے بھی آئی پی پیز کے خلاف بنی جی آئی ٹی میں ایف آئی اے کی نمائندگی کر چکے ہیں جس کے بہت سے ایسے متاثرین ہیں جو وفاقی کابینہ میں موجود ہیں۔

انھوں نے چینی کمیشن کی تحقیقات کے دوران سٹیٹ بینک، ایف بی آر اور ایس ای سی پی سمیت دیگر سرکاری محکموں کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے تھے جو، بقول ان کے، بہت سے لوگوں کو بُرے لگے۔
مزیدخبریں