سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے سعودی ولی عہد کی گھڑی بیچنے والے معاملے پر جیو نیوز اور عمر فاروق ظہور سمیت دیگر افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنےکا علان کیا تھا جس کے ردعمل میں وفاقی وزیر مریم اورنگزیب کا بیان سامنے آیا ۔
مریم اورنگزیب نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب بہت ہوگیا۔ فارن فنڈنگ، کرپشن اور منی لانڈرنگ کا جواب تو دینا پڑے گا۔ عمران خان نے گھڑی 2 کروڑ روپے کی خریدی اور ہینڈلرز کے ذریعے 28 کروڑ کی بیچ دی۔
انہوں نے کہا کہ پیسے منی لانڈر ہو کر پاکستان آئے اور ڈکلیئر نہیں کیے گئے۔ پاکستان، دبئی، مریخ یا پھر چاند جہاں کہیں بھی مقدمہ کریں۔ آپ کو رسیدیں تو وہاں بھی دینا پڑیں گی۔
وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ عمران خان بتائیں کہ گھڑی کے پیسے پاکستان کون اور کیسے لایا؟ اور عمران خان کے ہینڈلرز فرح خان اور شہزاد اکبر پکڑے گئے ہیں۔ دوسروں پر الزامات اور رنگے ہاتھوں پکڑے جاؤ تو بے بنیاد الزام۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ الزامات پر سیاسی مخالفین کو سزائے موت کی چکیوں میں رکھو ؟ اور خود پر ثابت ہو تو بے بنیاد کی گردان ؟
مریم اورنگزیب نے کہا کہ عمران خان اعلان نہ کریں بلکہ عدالت جانے کی تاریخ بتائیں اور عمران خان عدالت جانے کی تاریخ کے ساتھ گھڑی بیچنے کی رسید بھی جاری کریں۔ اس میں شاہ زیب خانزادہ، جیو اور میر ابراہیم کا کیا قصور؟
مریم اورنگزیب نے یہ بھی بتایا کہ عمران خان نے توشہ خانہ کیس کے کسی نوٹس کا جواب نہیں دیا اور کسی تفتیش میں شامل نہیں ہوئے۔
واضح رہے کہ منگل کی شام توشہ خانہ کیس میں ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ توشہ خانہ کیس کے سب سے مہنگے سیٹ کا خریدار سامنے آ گیا۔ نایاب گھڑی سمیت پورا سیٹ 28 کروڑ پاکستانی روپے میں خریدا۔جیو نیوز کے پروگرام ‘آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ’ میں توشہ خانہ کیس میں سب سے مہنگے سیٹ کو خریدنے والی شخصیت نے بڑے انکشافات کیے ہیں جو آنے والے دنوں میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے لئے شدید مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔
پروگرام کے میزبان شاہزیب خان زادہ کے ساتھ دبئی کی اہم کاروباری شخصیت عمر فاروق ظہور نے گفتگو کی ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ 2019 میں انہوں نے یہ سیٹ خریدا تھا۔ عمر فاروق نے بتایا کہ یہ سیٹ انہوں نے اس لئے خریدا کہ وہ مہنگی اور نایاب گھڑیوں کے شوقین ہیں۔ یہ گھڑی چونکہ گراف کپمنی کی تیار کردہ تھی اور یہ لیمیٹڈ ایڈیشن تھا اس لئے انہوں نے یہ سودا کیا۔
عمرفاروق نے بتایا کہ ان کے عمران خان حکومت کے سابق مشیر داخلہ مرزا شہزاد اکبر سے پرانی واقفیت تھی جس کی بنیاد پر 2019 میں شہزاد اکبر نے ان کو کال کر کے اس گھڑی کے بارے میں بتایا۔ "شہزاد اکبر نے بتایا کہ یہ گھڑی لیمیٹڈ ایڈیشن ہے جو سعودی شاہی خاندان نے خاص طور پر وزیر اعظم عمران خان کے لئے بنوائی تھی اور ان کو سعودی عرب کے دورے پر تحفے میں ملی تھی۔”
کاروباری شخصیت کے مطابق عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی دوست اور دست راست فرح گوگی اس گھڑی کو لے کر دبئی آئیں اور ان سے ان کے آفس میں ملاقات کی۔ فرح نے ان کو گھڑی کے بارے میں معلومات دیں اور ساتھ میں گھڑی کے حوالے سے ضروری سرٹیفکیٹ بھی دیے۔ فرح نے یہ بھی بتایا کہ یہ گھڑی عمران خان کو تحفے میں ملی تھی۔
عمر فاروق کے مطابق جب وہ گھڑی لے کر بازار گئے تو ان کو بتایا گیا کہ یہ گھڑی ایک ماسٹر پیس ہے اور اس گھڑی کی قیمت 10 سے 15 ملین ڈالر ہو سکتی ہے۔ ان کو بتایا گیا کہ اگر آپ کو یہ گھڑی 5 سے 6 ملین ڈالر میں مل سکتی ہے تو یہ ایک مناسب اور منافع والا سودا ہوگا۔
انہوں نے فرح کے ساتھ گھڑی کی خریداری کے لئے سودے بازی کی تو ان کی بات 20 لاکھ ڈالر میں طے ہو گئی۔ عمر فاروق کے مطابق فرح یہ گھڑی 5 ملین ڈالر تک بیچنا چاہتی تھیں مگر ان کو پیسوں کی ضرورت تھی، اس لئے وہ 2 ملین ڈالر پر راضی ہو گئیں۔ انہوں نے فرح کو یہ رقم کیش میں دی اور رقم کی ادائیگی درہم میں کی گئی جو کہ 750 ملین درہم بنتی تھی۔
شاہزیب خان زادہ نے سوال کیا کہ آپ کے پاس گھڑی کی خریداری کا کیا ثبوت ہے؟ عمر فاروق کا کہنا تھا کہ اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ گھڑی ان کے پاس موجود ہے اور ان کے پاس رقم اور گھڑی کی خریداری کے ثبوت اور متعلقہ کاغذات بھی موجود ہیں۔
گھڑی سے ملنے والی رقم 2 ملین ڈالر تھی جو کہ اس وقت کے ڈالر کے ریٹ کے حساب سے پاکستانی کرنسی میں 28 کروڑ روپے بنتی ہے جب کہ عمران خان نے یہ گھڑی توشہ خانہ سے سوا دو کروڑ روپے کی خریدی تھی۔
عمر فاروق کا کہنا تھا کہ گھڑی خریدنے کے بعد شہزاد اکبر نے ان کو مالی تعاون کے لئے اور مختلف خدمات حاصل کرنے کے لئے تنگ کرنا شروع کر دیا۔ جب انہوں نے ان کو سہولیات فرہم کرنے سے انکار کر دیا تو شہزاد اکبر ان سے ناراض ہو گئے اور پاکستان میں ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں شروح کروا دیں۔
عمر فاروق کا کہنا تھا کہ وہ اس گھڑی کی خریداری کے متعلق ثبوتوں اور دستاویزات کے ساتھ پاکستان کی عدالتوں میں بھی آنے کو تیار ہیں۔