جیک ما اس وقت 41.4 ارب ڈالرز یعنی 50 کھرب پاکستانی روپے سے زائد کے مالک ہیں اور دنیا کے 20ویں امیر ترین شخص ہیں، مگر ایک وقت تھا جب ان کی ماہانہ آمدنی نہ ہونے کے برابر تھی۔ جیک ما نے 1988 میں گریجویشن کے بعد اپنے آبائی علاقے ہانگژو میں ایک یونیورسٹی میں انگلش ٹیچر کے طور پر کام کیا تھا جہاں ان کی ماہانہ تنخواہ 12 ڈالر تھی، اس کے بعد انہوں نے علی بابا کی بنیاد رکھی تھی۔
سنگاپور میں ہونے والی ایک کانفرنس کے دوران پرائمری، مڈل اور یونیورسٹی کے داخلے کے امتحانات میں ناکام رہنے والے جیک ما نے مذاق کرتے ہوئے کہا کہ آج انہیں علی بابا میں ملازمت بھی نہیں مل سکتی کیونکہ اب اسٹینفورڈ اور ہارورڈ سے فارغ التحصیل طالبعلموں سے مسابقت کا سامنا ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ علی بابا کے ذہین ملازمین پر فخر ہے مگر وہ ذاتی طور پر ایسے دانشمند شخص کو ترجیح دیتے ہیں جو اپنے دل کو استعمال کرے۔
اس کانفرنس میں ہی جیک ما نے بتایا کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بچوں کو پڑھانے کے حوالے سے کچھ منصوبے تیار کر چکے ہیں اور وہ گزشتہ 5 برس کے دوران دیہی علاقوں کے اساتذہ کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں اور وہاں انہیں مختلف آئیڈیاز کو منصوبے کی شکل دینے میں مدد ملی ہے۔
انہوں نے اس بات پر تشویش ظاہر کی کہ آج کی نوجوان نسل ڈیجیٹل عہد میں آگے بڑھنے سے قاصر ہوجائے گی اگر اگلے 2 سے 3 دہائیوں کے دوران تعلیمی نظام کو بدلا نہیں گیا۔