راستے میں اس نے ایک آدمی کو دیکھا جو چارپائی بُننے کے لیے بان تیار کررہا تھا۔ انگریز نے حیرت سے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ اس نے آدمی نے جواب دیا”چارپائی بنانے کے لیے وان ”وٹ “ رہا ہوں ‘۔ انگریز بولا”اچھا ! تم لوگ twist کرنے کو ’’وٹ‘‘ بولتا ہے۔ تھوڑا آگے گیا تو کیا دیکھا کہ ایک دکاندار بڑا پریشان بیٹھا ہے۔ گورے کو ترس آیا، وه اس کے قریب گیا اور پوچھا کہ خیر تو ہے؟
آپ بڑے پریشان نظر آ رہے ہیں۔ دکاندار نے بیزاری سے گورے کی طرف دیکھااور کہا’آج کام بڑامنداجارہا ہے ۔صبح سے ایک روپیا بھی نہیں وٹ سکا‘۔
انگریز نے سرہلاتے ہوئے کہا ’’اوه! اچھا پنجابی لوگ Earningکو وٹ بولتا ہے “۔ انگریز بڑاخوش تھا کہ اس نے ایک لفظ کا دوہرا استعمال سیکھ لیا تھا۔ اپنی لغت میں معلومات کا اضافہ ہونے کی خوشی میں سرشار انگریز نے دکاندار کو گڈبائے کیااور گاؤں کی طرف روانہ ہوگیا۔ تھوڑی دور ہی گیا ہوگا کہ گاؤں کے چودھری صاحب آتے دکھائی دیئے۔انگریز بڑی حیرت سے چودھری صاحب کو تکے جا رہا تھا۔ چودھری صاحب کا کھسہ، اونچے شملے والی پگ اور کلف لگنے کی وجہ سے اکڑی ہوئی قمیص نے چودھری صاحب کوخوب سجیلا بنا رکھا تھا۔ گورا گلے ملنےکے لیے آگے بڑھا توچودھری نے دور سے ہی آواز لگائی” گورے بھاجی ! ذرا آرام نال۔ کدے میرے قمیص نوں’وٹ‘ نہ پئے جائے “۔
انگریز نے جواب دیا میں سمجھ گیا ۔ آپ لوگ کپڑے پر Wrinklesپڑنے کو ”وٹ “ بولتے ہو۔ گورا بڑا خوش تھا کہ وه پنجابی کے صرف ایک لفظ’وٹ ‘ کے تین مختلف استعمال سیکھ چکا تھا۔ چودھری کو گاؤں آنے کا مقصد بتاتے ہوئے وه آگے بڑھ گیا۔ ابھی ایک آدھ منٹ ہی گزرا ہو گا کہ اس نے ایک آدمی کو دیکھا جو اپنا پیٹ دبائے سرپٹ کھیتوں کی طرف دوڑا چلا جا رہا تھا۔ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کا پیٹ خراب ہو اور اب مزید برداشت کرنامشکل ہو۔ وه شلوار خراب ہونے سے پہلے کسی محفوظ جگہ پہنچنا چاہتا تھا۔ انگریز نے سمجھا کہ شاید یہ بنده کسی مصیبت کا شکارہے ۔ پس اس کی مدد کرنی چاہیے ۔ انگریز نے زورسے آوازلگائی بھائی جان ! خیرتوہے ؟ اس آدمی نے کنکھیوں سے انگریز کی طرف دیکھا اور دوڑتے دوڑتے جواب دیا ‘‘ کوئی گل نئی بادشاہو۔ بس میرے پیٹ وچ بڑا زور دا ‘‘وٹ ’’ پیا ہوا اے’’۔
انگریز نے پریشانی کے عالم میں تھوڑی دیر سوچا اور پھر مسکراتے ہوئے خود سے مخاطب ہوا ’’ اوه اچھا! تم پنجابی لوگ Motion Looseکو بھی وٹ بولتے ہو۔ پنجابی زبان کی وسعت پر حیران ہوتے ہوئے وه گاؤں کی طرف روانہ ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد دور سے ایک بزرگ آتے دکھائے دیئے ۔قریب
آئے تو انگریز نے ان کو روکا اورپوچھا کہ گاؤں ابھی مزید کتنی دور ہے ؟بابا جی نے حقے کا کش لگایا اور دھواں اڑاتے ہوئے بولے’’ پتر! وٹو وٹ ٹری جاؤ۔ ہن تھوڑا ای ره گیا اے‘‘۔ باباجی نے مزید سمجھانے کے لیے پگڈنڈی کی طرف سیدھا اشاره کیااور پوچھا کہ سمجھ آئی ؟ انگریز نے جواب دیا ‘‘جی ہاں! میں سمجھ گیا تم لوگ اس Pathکو بھی وٹ بولتے ہو جس پر بنده پہلے سے چل رہا ہو۔ باباجی سرہلاکر آگے بڑھ گئے ۔
باباجی کو آگے جاتادیکھ کر انگریز نے بھی اپنی راه لی۔ کچھ دیر بعد اس کا گزر ایک ایسے بندے کے پاس سے ہوا جو ہونقوں کی طرح فضا میں دیکھے جا رہا تھا۔ انگریز نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھاتو اس نے دور آسمان کی طرف اشاره کرتے ہوئے کہا’’ اج تے فضاوچ بڑی ’’وٹ‘‘ اے‘‘ ۔
انگریز نے اپنی جسم کو ہوا میں کچھ محسوس کرایا اور مسکراتے ہوئے بولا ' اچھا! تو آپ پنجابی لوگ Humidity کو بھی ‘‘وٹ’’ بولتے ہو’’۔ کچھ دور گیا تو ایک اور بندے کو دیکھا جو بڑا ہی پریشان دکھائی دے رہا تھا۔
انگریز نے وجہ پوچھی تو اس نے سراٹھا کر اسے دیکھااور اپنا سرجھکا کرپھر زمین لکیریں مارنے لگا۔ یہ دیکھ کر پاس کھڑے اس کے ایک دوست نے کہا بابوجی ! پریشانی دی کوئی گل نئی ۔ایہہ بڑامیسنا اے۔ اینویں ای ”وٹ“ دڑ کے بیٹھا اے‘‘۔
انگریز نے سرہلایا اور دل میں سوچا کہ پنجابی میں Silent بیٹھنے کو بھی’’وٹ“ کہتے ہیں۔
اب انگریز کا تجسس بڑھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد وه گاؤں میں داخل ہوچکا تھا۔کچے پکے مکان، کاندھوں پر ہل رکھے واپس آتے کسان، سر پر گھڑے اٹھائے پانی لاتی ہوئی مٹیاریں، تندور پر روٹیاں لگاتی ہوئی عورتیں، گلی ڈنڈا کھیلتے ہوئے لڑکے بالے اور منڈیروں پر بیٹھے کبوتراور کوّے بڑا ہی دلکش نظاره پیش کر رہے تھے ۔ اب ضرورت تھی کہ مولوی صاحب کا مکان پوچھا جائے۔ انگریز نے متلاشی نظروں سے ادھر ادھر دیکھا، تھوڑے فاصلے پر کچھ لوگ نظر آئے تو ادھر چل پڑا۔ وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ لڑائی ہو رہی ہے ۔انگریز بچ بچاؤ کے لیے آگے بڑھا۔ انگریز کو اپنی طرف آتے دیکھ کر لمبے قدکے آدمی نے کہا بابوجی ! رک جاؤ۔مینوں ایدے تے بڑا”وٹ“ اے۔ میں اینوں کوئی نئی چھڈنا’’۔ انگریز نے سوچا کہ Angerکو بھی پنجابی میں ”وٹ“ کہا جاتا ہے۔ اس بندے سے مایوس ہر کر انگریز دوسرے بندے کی طرف بڑھا تاکہ لڑائی ختم کرائی جا سکے مگراس نے بھی غصے سے اس کی طرف دیکھا اور کہا ‘‘سرکار!تھاں تے ای رک جاؤ۔ ایہہ ”وٹ“ ختم نئی ہو سکدی۔ انگریز رک کر سوچنے لگا کہ پنجابی میں تو Fightکو بھی ”وٹ“ کہتے ہیں۔
بہرحال انگریز مایوس نہ ہوااور لڑائی ختم کرانے کے لیے آگے بڑھا۔ اسے آگے بڑھتا دیکھ کر مجمع میں سے ایک آدمی آگے آیا، اس کا بازو پکڑ ااور اپنی طرف کھینچتے ہوئے بولا ‘‘ تسی اگے نہ جاؤ۔نئی تے انہاں نے تہانوں وه ”وٹ“ دینا اے ’’۔ انگریز کومعلوم ہوا کہ Beatکو بھی پنجابی میں ”وٹ“ کہا جاتا ہے۔ یہ دیکھ کر انگریز مولوی صاحب کے مکان کی طرف بڑھ گیا ۔ وه ایک بچے کو مار رہے تھے جس کی آئے روز شکایات آتی رہتی تھیں۔
انگریز نے کہا ‘‘مولوی جی! جانے دیں ۔ بچہ ہے ۔ بڑا ہوگا تو سمجھ جائے گا’’۔ مولوی صاحب نے ایک نظر اسے دیکھااور کہا‘‘ اینے پورے گاؤں وچ انی پائی ہوئی اے۔ اج پہلے میں ایدے ”وٹ“کڈھان گا تے پھر چھڈاں گا’’۔
انگریز نے بے بسی کے عالم میں دماغ پر زور دیا اور پھر اس نتیجے پر پہنچا کہ پنجابی میں تو (Haughty)اکڑفوں کو بھی ”وٹ“ کہا جاتا ہے ۔یہ دیکھ کر انگریز اپنی جگہ سے اٹھا، مولوی جی کو سلام کیا، باہر نکلااور یہ کہتے ہوئے واپسی کی راه لی “What a comprehensive language? My life is too short to learn”