صاحب دیکھیں نا ہم سب ایوب خان کو اپنا گرو مانتے ہیں۔ وہ نوکری کی اضافی مدت حاصل کرنے کے ساتھ آٹھ نو سال پیچھے بیٹھ کر حکومتیں بناتے اور گراتے رہے۔ پھر جب خود اقتدار حاصل کیا تو اظہار رائے پر ایسے ہی پابندیاں لگیں،ایسے ہی اختلاف رکھنے والے سیاستدان کرپشن کے الزامات پر نااہل ہوئے، جیلوں میں ڈالے گئے۔ محترمہ فاطمہ جناح اور حسین شہید سہروردی سمیت ہزاروں لوگ غدار قرار پائے بلکہ بنگالی تو سب کے سب غدار ٹھہرے۔
انگریز کے ترکہ کے تمام جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو ساتھ ملایا گیا۔ ان کو وزارتوں اور پرمٹوں سے نوازا گیا۔ زراعت اور صنعت میں خوب ترقی نظر آنے لگی۔ امریکہ کی پوری آشیرباد حاصل کئے رکھی اور خوب ڈالر حاصل کئے۔ سیاسی محاذ پر پاکستان مسلم لیگ اور اس کی لیڈر شپ کو توڑ مروڑ کر اپنے گھر کی باندی بنا لیا۔ مذہبی جماعتوں سے مخاصمت اپنی جگہ لیکن ان کی لیڈرشپ کو مختلف طریقوں سے نواز کر اور ان کو کمیونزم کا خوف دلا کر بہت حد تک قابو میں رکھا۔
اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں کو مارشل لاء کے طنطنے سے قابو میں رکھا۔ ترقی، سکیورٹی اور فوجی مداخلت کے لازم ملزوم ہونے کا خوب پراپیگنڈا کیا گیا جس سے ایک اچھا خاصا بڑا مفاد یافتہ طبقہ پیدا ہوا۔ جو آج تک سول سپرمیسی کو فضول مشق سمجھتا ہے۔غرضیکہ ایک انگریز کی طرز کے نظام کی دیسی عمارت کھڑی کر دی گئی۔ لیکن حضور اتنی مربوط اور دور اندیش منصوبہ بندی کے باوجود اقتدار صرف نو سال برقرار رہ سکا۔ اسی اقتدار کے ثمرات نے مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہو جانے کی بنیاد رکھی۔
یحیی خان کے ساتھ بھی وہی خاص طبقہ اسی طرح ساتھ ہوأ لیکن وہ بھی اپنے لئے ہائبرڈ نظام بناتے آدھا ملک بھی گنوا بیٹھے اور اقتدار بھی جاتا رہا۔ ضیاء نے بھی صرف پیپلز پارٹی یا ترقی پسند آوازوں کو نشانے پر رکھا۔ بھٹو خاندان کو چھوڑ کر پارٹی کے دوسرے کئی رہنماؤں کو خفیہ طور پر اپنا ہمنوا بنائے رکھا۔ افغان جنگ کی وجہ سے ڈالر کی بارش تو ہو ہی گئی لیکن جہاد کے نام پر مذہبی جماعتوں کو ساتھ شامل کر کے انہیں سیاست سے ہٹا کر جہاد اور چندے کے پیسے اکٹھے کرنے پر لگا دیا گیا۔ جماعت اسلامی جیسی انقلاب کی داعی جماعت نے اپنے آپ کو جہاد اور تعلیمی اداروں پر تسلط تک محدود کر لیا۔ پنجاب کو اپنے ہاتھ میں رکھا لیکن قوم پرست جماعتوں حتٰی کہ علیحدگی پسند جماعتوں کے خوب لاڈ اٹھائے گئے۔
ملک میں رنگ، نسل اور فرقہ کی بنیاد پر پارٹیاں بنانے کی خوب حوصلہ افزائی ہوئی، بلدیاتی انتخابات،ریفرنڈم اور پھر غیر جماعتی انتخابات کروا کے نئی قیادت پیدا کرنے کی کوشش ہوئی۔ اپنے اقتدار کیلئے اسلامی نظام کے نفاذ کا خوب چرچا ہوأ لیکن صاحب ضیاء کے ساتھ ہی اس کا نظام بھی دھڑام سے نیچے آ گرا تھا۔ بعد میں آنے والے کبھی آئی جے آئی اور لیڈر بناتے اور کبھی پورا الیکشن اغواء کرتے پائے گئے۔ اس کے باوجود کہ بہت ساری سیاسی پارٹیاں ان کے ساتھ ملی ہوتی تھیں پھر بھی یہ نظام جڑ نہیں پکڑ سکا۔ پھر پرویز مشرف روشن خیالی کا خیال لے کر پہنچے۔ دوسری افغان جنگ اور امریکی ڈالر پھر میسر ہوا۔ ڈالر کی ریل پیل سےلوگوں کی زندگیوں میں خوشحالی بھی آئی۔ مشرف نے اقتدار کو قانونی رنگ دینے کیلئے وہی ریفرنڈم اور نئی مسلم لیگ بنانے والا آزمودہ نسخہ ہی اپنایا۔ روشن خیالی کے نعرہ کے باوجود مذہبی جماعتوں کو اقتدار میں بھرپور حصہ دینا پڑا۔ ایم کیو ایم کو ایسا اقتدار ملا کہ دنیا دنگ رہ گئی.ان سب طاقتوں کو حصہ دینا ایسے نظام کی مجبوری ہوتا ہے۔ لیکن دیکھ لیجیے ذرا سی گرم ہوا چلی اور سب کچھ ہوا ہو گیا۔ حتٰی کہ بارہ مئی اور تین نومبر بھی ان کے اقتدار کو نہ بچا سکے۔.
حضور یہ نظام تو پہلے ہی کبھی جڑ نہیں پکڑ پایا اور اس دفعہ تو ہم تمام انڈے ایک ٹوکری میں رکھ بیٹھے ہیں۔ ایک خود بنائے ہوئے گروہ کے علاوہ نہ کوئی مذہبی سیاسی پارٹی ساتھ کھڑی ہے اور نہ ہی کوئی قومی یا قوم پرست جماعت۔ تنہائی ایسی ہے کہ خوف آتا ہے.چلیں مہنگائی پر قابو پا کر عام آدمی کا اعتماد حاصل کیا جا سکتا تھا لیکن یہ نظام جس چیز کا نوٹس لیتا ہے وہ مہنگی ہو کر غائب ہو جاتی ہے۔ گندم اور ڈالر کے مہنگے ہونے کا انہیں ٹی وی سے پتہ چلتا ہے. آپ انہیں اپنے نظام کے دفاع کیلئے لائے تھے یہ تو اپنے دفاع کے بھی قابل نہیں۔ غداری کے مقدمے اور الزامات برصغیر کی رسم سہی لیکن جو مقدمات درج ہو رہے ہیں یا ماضی قریب میں درج کروانے کی کوشش ہوئی اس میں آپکا نام کیوں لیا جائے اور کیا پنجاب کے پاپولر سیاستدان کو غدار بنانا آسان ہوگا۔ صاحب نوازشریف کو اشتہاری قرار دینے کیلئے ڈھول کے استعمال سے تماشہ تو خوب لگے گا لیکن راستہ بند ہو جائے گا۔ نیب کب تک اس ظلم کو سہارا فراہم کر سکتا ہے۔ یہ سیاست دان تو اپنے مستقبل کو آنکھوں میں رکھ کرآپ سے بات کرنے کے متمنی ہوتے تھے۔ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا مستقبل کے کسی وعدہ کے پیش نظر گلہ تک نہیں کرتے تھے لیکن یہ کیا اب تو ان کی ملاقاتیں بھی چوک چوراہوں کی گفتگو کا حصہ بن گئیں.آپ کا دسترخوان تو بہت وسیع تھا اس کو کس کی نظر لگ گئی ۔ بہت اچھا فیصلہ ہے کہ آپ اس ساری سیاست میں کسی طرف بھی وزن نہیں ڈالیں گے۔
صاحب ایک عرض کریں، آپ کی عزت ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہے۔ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے کچھ چھپ نہیں سکتا۔ زبانیں گز بھر لمبی ہو گئی ہیں۔ لوگ پہلی دفعہ منہ بھر کے نام لیتے ہیں اور ایسا تو برسراقتدار گروہ بھی چاہتا ہے کیونکہ ٹکراؤ اس کے مفاد میں ہے. صاحب ہم اپنی وفا شعاری کا واسطہ دے کر کہتے ہیں کہ واپس چلتے ہیں۔ تصادم سے بچیں، گھر کو بچا لیں،ہم فقیروں کا مشورہ ہے کہ ایوب خان کی بنائی ہوئی آسیب زدہ عمارت سے نکلیں اور قائد اعظم کے بنائے گھر میں پناہ لے لیں۔ قائد نے وہاں رہنے کیلئے جو ہدایات ہمارے اور آپ کیلئے علیحدہ سے دی تھیں اس سے بہتر انتظام ممکن نہیں۔ یہی گھر ہم سب کو بےدخلی کے خوف سے نجات دے گا۔ کیونکہ یہ ناجائز جگہ پر نہیں بنا اور نہ ہی اس کے بنانے میں کوئی ناجائز ذرائع استعمال ہوئے۔ ایسا نہیں کہ اس گھر میں ہماری خدمت یا وفا شعاری میں کمی آ جائے گی بلکہ محبت اور بڑھ جائے گی.آپ کا سایہ تو ہماری حفاظت کیلئے بے حد ضروری ہے۔