عام طور پر ناشتے میں استعمال ہونے والی باقر خانی کرکری پرت دار، پتلی اور روغنی ٹکیا ہے۔ جو میدہ، گھی اور دودھ سے تیار کی جاتی ہے۔ اس کے اوپر دانے دار چینی، خشخاش یا تل چھڑک کر اس کا ذائقہ مزید بڑھایا جاتا ہے۔ اس تندوری ٹکیا کے نام کے پیچھے باقر خان اور خانی بیگم کے عشق کی داستان ہے۔
بہت سے دیگر پاکستانی کھانوں کی طرح باقرخانی بھی مغلوں کے کچن میں متعارف ہوئی۔ اٹھارویں صدی کے وسط میں بنگال کے شہروں میں باقرخانی بنائی اور کھائی جاتی تھی۔
روایات کے مطابق باقر خانی کا نام باقر خان کے نام پر رکھا گیا ہے جو نواب سراج الدولہ کے دور حکومت میں چٹاگانگ میں ایک فوجی جرنیل تھے۔ باقر خان ایک خوبصورت شاہی رقاصہ خانی بیگم کے عشق میں مبتلا تھے اور خانی بیگم بھی باقر خان کی دیوانی تھیں۔ محبت کی اس داستان میں ایک اور درباری افسر زین الخان کی انٹری ہوئی۔ جب اس کو تمام تر کوششوں کے باوجود خانی بیگم کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہ ملا تو اس نے خانی بیگم کو اغوا کر کے قید میں ڈال دیا۔
باقر خان نے جلد ہی خانی بیگم کو زین الخان کی تحویل سے آزاد کروا لیا۔ لیکن، ایک نئی مصیبت میں پھنس گیا۔ خانی بیگم کے آزاد ہونے پر زین الخان روپوش ہو گیا اور اپنے قتل کی افواہ پھیلا دی۔ اس قتل کا الزام باقر خان اور خانی بیگم پر آیا، اس جرم میں دونوں کو سزائے موت سنائی گئی۔
جب یہ خبر شہر میں پھیلی تو نان بائیوں نے باقر خان اور خانی بیگم سے عقیدت کے طور پر باقر خان کی پسندیدہ روٹی کو باقرخانی کا نام دے دیا۔
یہ باقرخانی جب بنگال سے پورے برصغیر میں پھیلی تو اس کے ساتھ باقر خان اور خانی بیگم کی محبت کی داستان بھی امر ہوگئی۔