خواتین اراکین اسمبلی نے اپنے تناسب سے کہیں زیادہ تعداد میں بل، تحریک التوا، سوالات اور توجہ دلاؤ نوٹس پیش کیے جبکہ مجموعی طور پر اسمبلیوں کے اجلاسوں میں ان کی حاضری بھی بھرپور رہی۔
ایکسپریس نیوز کی رپورٹ کے مطابق دیگر اسمبلیوں کے مقابلے میں سندھ اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں میں اگرچہ خواتین ارکان کو اسٹینڈنگ کمیٹیوں میں کم نمائندگی حاصل ہے لیکن مذکورہ اسمبلیوں کی خواتین نے قانون سازی اور اسمبلیوں کی کارروائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
مذکورہ نکات کا اظہار فریڈرک ناؤمن فاؤنڈیشن اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اشتراک سے پاکستان میں 2018 سے 2020 تک خواتین اراکین کی کارکردگی سے متعلق کیے گئے سروے میں کیا گیا ہے، فوزیہ وقار اور طاہرہ حبیب نے مذکورہ سروے کے مندرجات پیر کو مقامی ہوٹل میں میڈیا کے سامنے پیش کیے۔
سروے کے دوران خواتین اراکین اسمبلی نے سیاسی ایوانوں اور سیاسی جماعتوں کے پروگراموں میں ان کے ساتھ صنفی امتیاز کے رویے کی شکایت کی سروے میں کہا گیا کہ سیاسی جماعتیں عام انتخابات میں خواتین سیاستدانوں کو جنرل سیٹوں پر نامزد نہیں کرتیں کیونکہ وہ انھیں اس قابل نہیں سمجھتیں کہ خواتین بھی جنرل سیٹوں پر کامیاب ہوسکیں گی۔
سروے میں کہا گیا کہ خواتین ارکان بشمول پاکستان تحریک انصاف کی خواتین ارکان کو یہ بھی شکایت تھی کہ ان کی جماعتیں انھیں فیصلہ سازی میں شامل نہیں رکھتیں۔
سروے میں یہ سفارش کی گئی ہے کہ سیاسی جماعتیں بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں خاص طور پر خواتین کو زیادہ نمائندگی دیں تاکہ وہ اسمبلیوں تک پہنچنے تک تجربہ کار سیاستدان اور پارلیمنٹیرین بن سکیں۔