اسلام آباد میں کرونا وائرس کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے جو صورتحال پیدا ہوئی اس کی اس سے قبل کوئی مثال نہیں ملتی۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر میں تمام ٹاپ ادارے شامل ہیں اور یہ ادارے ہر روز بیٹھتے ہیں۔ ماہرین روزانہ مریضوں اور کرونا کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں، ادارے تمام رابطوں کے بعد ایک ڈیٹا مرتب کرتے ہیں اور ہر روز صورتحال کا جائزہ لیا جا رہا ہوتا ہے۔ اپریل میں کرونا کے کیسز 50 ہزار تک تجاوز ہونے کا تخمینہ لگایا تھا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ تعداد 12 سے 15 ہزار کے درمیان ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کیسز کی اس تعداد کی حد تک ہمارے ہسپتالوں میں موجود سہولیات کافی ہیں تاہم جس طرح کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہو رہا ہے کہ 15 مئی سے 25 مئی تک مشکل کا سامنا ہوسکتا ہے اور اس دوران ہسپتالوں پر دباؤ پڑ سکتا ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہمارے حالات مغربی ممالک سے بہت مختلف ہیں۔ کچی آبادیوں میں بہت گنجان آبادی ہے جہاں ایک ایک کرے میں 6 سے 8 افراد رہائش پذیر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ہمیشہ دیکھا کہ جو بھی پالیسی بنائی گئی اسے ایک خاص طبقے کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائی گئی۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کے پاس اختیار تھا اور انہوں نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا اور اب بھی میں یہ کہتا ہوں کہ مجھے سب سے زیادہ خطرہ کمزور اور غریب طبقے کے حوالے سے ہے۔ مغربی ممالک میں تقریباً تمام مزدور حکومت کے پاس رجسٹرڈ ہیں جن کی درخواست پر حکومت ان کی مدد کر رہی ہے لیکن ہمارے 80 سے 90 فیصد مزدور غیر روایتی شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے ہر ایک تک پہنچنا ممکن نہیں اور خدشہ ہے کہ اگر لوگوں تک رسائی نہ ہوئی تو وہ سڑکوں پر آجائیں گے اور لاک ڈاؤن کا مقصد ختم ہوجائے گا اس لیے تعمیرات کا شعبہ کھولا گیا۔
وزیراعظم نے کہا ہم نے تعمیرات کے شعبے میں شرکت کے لیے ہر ایک کو دعوت دی تا کہ لوگوں کو روزگار ملے۔
انہوں نے کہا میں نے سوشل میڈیا پر ایسے چیزیں دیکھی ہیں کہ لاک ڈاؤن توڑنے والوں کو ڈنڈے مارنے جارہے ہیں اس لیے میں پولیس سے کہنا چاہتا ہوں کہ ڈنڈے مارنے کے بجائے غریب لوگوں کو سمجھائیں کیوں کہ ڈنڈے سے صرف ایک دو ہفتے تک لاک ڈاؤن کامیاب ہوسکتا ہے۔
رمضان المبارک میں عبادات کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ میں امامِ مساجد سے کہتا ہوں کہ کرونا وائرس کے حوالے سے طے شدہ چیزوں مثلاْ سماجی فاصلے پر عمل کریں کیوں کہ اگر کرونا پھیلا تو مسجد ویران ہوجائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ کرونا کے باعث لوگوں کی جانب سے ذخیرہ اندوزی کر کے پیسہ کمانے کی کوشش سب سے بڑا خطرہ ہے لیکن ہم اس پر بہت سختی کررہے ہیں۔ میں خبردار کر رہا ہوں کہ جو لوگ ذخیرہ اندوزی میں ملوث ہوئے ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی اور مالکان کو پکڑا جائے گا۔
وزیراعظم نے متنبہ کیا کہ ذخیرہ اندوزی اور اسمگلروں کے حوالے سے آرٖڈیننس تیار کر لیا گیا ہے اور اسمگلنگ کے خلاف بھی سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔