جنرل سلامی کے ویڈیو بیان میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ اور ان کے ساتھی ماسک اور دستانے پہنے اس نام نہاد کورونا بین آلے کی نمائش کر رہے ہیں۔ جنرل صاحب کا ماسک پہننا ہی اس آلے پر ان کے عدم اعتماد کو ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے ورنہ سو میٹر دور سے کورونا دیکھنے والے اس آلے کی مدد سے جنرل صاحب کسی ایسی جگہ جا کر ماسک کے تردد کے بغیر بریفنگ دے سکتے تھے جہاں کورونا نہ ہوتا۔ اس قسم کی افواہیں پھیلانے کا مقصد عوام فریبی کے سوا کچھ نہیں ہے لیکن اس حرکت نے سپاہِ پاسداران کو بری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ’قم کا ابوجہل‘
اگرچہ جدیدٹیکنالوجی بنانا اور اس کی نمائش کرنا جنرل صاحب کا کام نہیں، بلکہ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کا کام ہے، لیکن اس حرکت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے بجٹ پر بھی سپاہِ پاسداران کا زور چلتا ہے۔ یہ واقعہ دراصل ایران کے اندر رہبر اور صدر، مذہب اور علم، میں جاری سرد جنگ کا تازہ نمونہ ہے۔
دوسری طرف ایرانی علمی انجمنوں نے رد عمل دیتے ہوئے سپاہ پاسداران کے اس دعوے کو بیہودہ قرار دیا ہے۔ انجمن فیزیک ایران (Physics Society of Iran) نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اگرچہ بظاہر اس بریفنگ میں مقناطیسی میدان، برقی مقناطیسی امواج، مقناطیسی دو قطبی جیسی اصطلاحات کا استعمال کیا گیا ہے، لیکن سو میٹر کی دوری سے ان مظاہر کو استعمال کر کے نینو پارٹیکلز جتنا حجم رکھنے والے کورونا وائرس کو محسوس کرنا علمی طور پر ممکن نہیں ہے۔
اس قسم کے دعوے سائنس فکشن اور تخیلاتی قصوں کے سوا کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ یہ بریفنگ علم سے اس قدر دور ہے کہ ہم اس کو جعلی علم نمائی (pseudo-science) قرار دینے کا اعلان کرتے ہیں۔ انہوں نے اس ادعا کو قوانینِ طبیعت کے علم کے ساتھ کھلواڑ قرار دیا۔