کراچی کی یونین کمیٹیوں کے نقشے ہی غائب ہیں تو ٹاؤن پلاننگ کیسے ہو رہی ہے؟

07:47 PM, 18 Apr, 2020

محمد توحید
شہروں کی منصوبہ بندی میں ’نقشہ سازی‘ ایک بنیادی جز ہے۔ کوئی بھی شہر، نقشہ جات کے بغیر نہیں چل سکتا، شہر کا نقشہ ہمیں اس کی انتظامی حدود، پانی کی فراہمی، نکاسی آب کے نظام، سیوریج لائنوں، شہر کی گنجانیت وغیرہ کے بارے میں بتاتا ہے۔ نقشہ بنانے کی ضرورت کے ساتھ اسے باقاعدگی سے اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے مگرافسوس کی بات ہے کہ شہر کراچی میں ایسا نہیں ہو سکا۔

نقشے کا استعمال مقامات کو دیکھنے کے علاوہ بھی بہت ضروری ہے۔ نقشے عوام کوسہولت فراہم کرتے ہیں۔ اگر کراچی کےعوام کے پاس اپنے علاقے کا ایک تفصیلی نقشہ ہو جس کے مطابق وہ یہ جان سکیں کہ شہر کی انتظامی حدود کیا ہیں، یونین کمیٹی اور وارڈز کو کو ظاہر کرتا ہوا ایک تفصیلی نقشہ عوام کو بہت سے مسائل کو سمجھنے اور بیان کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

کراچی میں بڑی بڑی عمارتیں بن رہی ہیں اور شہرکی گنجانیت میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن نقشے کی بغیر یہ جاننا ممکن نہیں کہ یہ اضافہ کہاں اور کتنا ہے؟ اگرہم چاہتے ہیں کہ اپنے شہر کو بہتر بنائیں اور بہتر انداز میں چلائیں تو ہمیں ہر یونین کمیٹی کے نقشے کی ضرورت ہوگی اور شہر کے مضافاتی علاقوں میں یونین کونسل کے نقشے درکار ہوں گے۔



ہر علاقے کے نقشے میں پانی اور سیوریج کی لائنوں کے علاوہ دیگر سہولیات جیسے اسپتال اور سکول کی نشاندہی باآسانی کی جا سکتی ہے۔ نقشوں سے پتہ چلتا ہے کہ کہاں کام کی ضرورت ہے، اور کہاں مزید سروے کی ضرورت ہے۔ آج شہر کراچی بہت سے مسائل کا شکار نظر آتا ہے کہ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ اس شہر کی نقشہ سازی پر توجہ نہیں دی گئی اور جو نقشے ماضی میں بنائے گئے، انہیں اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا اور عوام کو ان تک رسائی نہیں دی گئی۔ اگر ایسا کیا جاتا توآج یہ سارے مسئلے نہ ہوتے۔

11 اپریل 2020 کو  ڈپٹی کمشنر کراچی شرقی کی جانب سے ایک نوٹیفکیشن جاری ہوا، جس کے مطابق ’ضلع شرقی کراچی کی یونین کمیٹیوں (یو سی۔6 گیلانی ریلوے، یوسی۔7 ڈالمیا، یو سی۔8 جمالی کالونی، یو سی۔9 گلشن II، یو سی۔10 پہلوان گوٹھ، یو سی۔12 گلزار ہجری، یو سی۔13 صفورا، یو سی۔14 فیصل کینٹ، یو سی۔2 منظور کالونی، یو سی۔9 جیکبب لائن، یوسی۔10 جمشید کوارٹر) میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تصدیق شدہ اطلاعات موصول ہوئیں۔ جس کے سبب عوام  کے وسیع تر مفاد میں، کوویڈ۔19 کو وسیع پیمانے پر پھیلنے سے روکنے کے لئے، سندھ وبائی بیماری ایکٹ۔2014 کے تحت ان مقامات/علاقوں کو سیل کر دیا گیا اور کراچی پولیس، رینجرز سے عوام کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے مذکورہ بالا علاقوں کو گھیرے میں لینے کی درخواست کی گئی‘۔

جیسے ہی یہ نوٹیفکیشن سامنے آیا تو کراچی بھر کے عوام بالخصوص ضلع شرقی کے رہائشی شدید الجھن کا شکارہو گئے کیونکہ ڈپٹی کمشنر کراچی شرقی کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں جو یوسیز کے نمبر لکھے گئے تھے وہ متروک ہو چکے ہیں۔ پھر بلدیہ شرقی کراچی کے چیئرمین معید انور نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر یو سیز کے نئے نمبرز اور متاثرہ علاقوں کی تفصیل شیئر کی تو پتہ چلا کہ کونسا علاقہ کس یو سی میں آتا ہے؟ مگر یونین کمیٹیوں کی حد بندی کیا ہے، کوئی نہیں بتا رہا۔ جاننے کا ایک ہی راستہ تھا کہ یونین کمیٹی کے نقشوں کو دیکھیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ نقشے ہیں کہاں؟

یوں لگتا ہے کہ کراچی کے اداروں کے پاس کراچی کی یونین کمیٹیوں کے نقشے نہیں۔ واضح رہے کہ 2015 کے بلدیاتی انتخابات سے قبل یونین کمیٹیوں کی حد بندی میں تبدیلی کی گئی تھی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حکم پر  نئی حد بندیوں کے نقشے بھی بنائے گئےتھے۔ مگر وہ نقشے ان کی ویب سائٹ پر بھی نہ ملے۔ البتہ ہر ضلع کی ایک لسٹ ملی جس میں یونین کمیٹیوں کے نمبر اور نام، یوسی کے چئیرمین کے نام تھے، مگر وہ نقشے کہاں ہیں جو یہ بتائیں کہ میں کراچی کی جس یوسی میں رہتا ہوں اس کی حدود کیا ہیں؟ حتیٰ کہ حلقہ بندیوں کا صرف خاکہ بھی دستیاب نہ ہو سکا۔



پھر یونین کمیٹیوں کی حد بندی میں تبدیلی سے پہلے کے نقشے جو کراچی کے سابقہ 18 ٹاؤنز کے لحاظ سے بنائے گئے تھے، ان سے مدد لینے کا سوچا۔ لیکن یہ ناممکن تھا کیونکہ اگر ہم ضلع کورنگی کی بات کریں جو کہ سابقہ کورنگی ٹاؤن، لانڈھی ٹاؤن اور شاہ فیصل ٹاؤن پر مشتمل ہے، اس میں حد بندی میں تبدیلی کے بعد 37 یوسیز ہیں۔ کورنگی ٹاؤن، لانڈھی ٹاؤن اور شاہ فیصل ٹاؤن کے پرانے نقشوں کو ملا کر یوسیز کی تعداد 28 بنی۔ پھر سوال پیدا ہوا کہ کون سی یو سیز کی حدود میں تبدیلی کی گئی تھی اور کس میں تبدیلی نہیں کی گئی؟

میں نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے کئی لوگوں سے پوچھا کہ کیا انہوں نے کراچی کی یونین کمیٹیوں (یو سیز) کا پورا نقشہ دیکھا ہے؟ کوئی ایک ایسا نہ ملا جو اثبات میں جواب دیتا۔ ابھی یہ تلاش جاری تھی کہ 13 اپریل کو صوبائی الیکشن کمشنر سندھ کے آفس سے ایک نوٹیفیکیشن جاری ہوا جس میں ’صوبہ سندھ میں آئندہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لئے یونین کونسل، یونین کمیٹی، وارڈز اور ٹاؤن کمیٹی، میونسپل کمیٹیوں میں کی دوبارہ حد بندی کا کہا گیا‘۔ صوبہ سندھ میں بلدیاتی کونسلوں کی 4 سال کی میعاد اگست 2020 میں ختم ہو رہی ہے، مدت پوری ہونے کے 120 دن کے اندر انتخابات کروانے کی ضرورت ہے۔



چونکہ موجودہ لوکل کونسلوں کی حد بندی 1998 کی مردم شماری کی بنیاد پر کی گئی تھی اور 1998 کی مردم شماری کے اعداد و شمار 2017 میں ہونے والی تازہ مردم شماری کے بعد متروک ہو گئے ہیں، لہٰذا اب الیکشن کمیشن کو 2017 کی مردم شماری کی بنیاد پر صوبہ سندھ میں مقامی کونسلوں کی دوبارہ حد بندی کرنی ہے۔

موجودہ صورتحال میں راشن کی تقسیم کا معاملہ ہو، کورونا کے متاثرہ افراد کی تعداد کو جانچنا ہو یا متاثرہ علاقوں کو سیل کرنا مقصود ہو، ہمیں شہر کی بنیادی انتظامی اکائی یعنی ’یونین کمیٹیوں‘ کی حدود کا معلوم ہونا اشد ضروری ہے۔ یہ وہ عوامی معلومات ہیں جنہیں سرکاری طور پر بلدیہ عظمیٰ کراچی کی ویب سائٹ پردستیاب ہونا چاہیے مگر بدقسمتی، شہر کراچی کے نقشے کراچی کے عوام کی پہنچ میں نہیں۔
مزیدخبریں