کوئی اسے بددعا کہتا ہے تو کوئی اسے مکافاتِ عمل کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ کوئی اسے حکمراں جماعت پی ٹی آئی کے گلے میں پھنسی ہوئی ہڈی سے تعبیر کرتا ہے تو کچھ ایسے بھی ہیں جو اسے خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلٰیٰ، پرویز خٹک، کا کارنامہ قرار دیتے ہیں۔ جب کہ بعض لوگوں نے اس کے مخفف (بی آر ٹی) میں شاعرانہ تصرف کی رعایت سے اسے اب ’ٹی بی‘ منصوبے کے نام سے بھی یاد کرنا شروع کر دیا ہے۔
’بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا‘
لیکن میں کہتا ہوں کہ بی آر ٹی (بس ریپڈ ٹرانزٹ) کوئی اتنا بھی گیا گزرا منصوبہ نہیں جو کورونا کو مات نہ دے سکے۔
جی ہاں، کورونا کے ان بھیانک دنوں میں جب ہر طرف دنیا بھر میں لوگ مر رہے ہیں اور خوف کے مارے گھر سے باہر نہیں نکل سکتے، اس میں بھی پشاور کے بد نامِ زمانہ بی آر ٹی منصوبے نے اپنے کمال کے بل بوتے پر خود کو ذرائع ابلاغ کی زینت بنا دیا ہے۔
ظاہر ہے کہ کورونا جیسی بڑی وبا نے، جس سے اب تک پوری دنیا میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک اور بیس لاکھ سے زیادہ متاثر ہوچکے ہیں اور دنیا کا سارا کاروبار ٹھپ اور زندگی جمود کا شکار ہے، ذرائع ابلاغ پر ایسی سٹوری کی موجودگی میں بھلا کیسے کوئی دوسری کہانی اس کی جگہ لے سکتی ہے؟
کورونا گذشتہ تقریباً ایک مہینے سے مسلسل میڈیا پر سرفہرست خبر بنی ہوئی ہے اور آئندہ بھی ایسی ہی ہیڈ لائنز بناتا رہے گا جب تک اس وبا پر پوری طرح قابو نہیں پا لیا جاتا۔
اس کہانی کی موجودگی میں تقریباً تمام ممالک میں دیگر تمام ایشوز جیسے پس پشت چلے گئے ہیں یا باالفاظ دیگر کوئی اور چیز بک ہی نہیں رہی۔ لیکن ایسے میں شاید پشاور کا بی آر ٹی پراجیکٹ واحد ایسا منصوبہ ہے جس نے اس دور میں بھی اپنا کمال کر دکھایا۔
گذشتہ دنوں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر صارفین کی طرف سے کچھ نئی وڈیوز شیئر کی گئیں جن میں بی آر ٹی سڑک پر مزدور پہلے سے تعمیر شدہ دیواروں کو دونوں طرف سے توڑتے ہوئے نظر آئے جس سے لگا کہ جیسے منصوبے میں غلطیوں کو دوبارہ سے درست کیا جا رہا ہو۔
اس سلسلے میں جب پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل ظفر علی شاہ سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے انڈی پینڈنٹ اردو کی رپورٹر کو تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ سچ ہے کہ ایک بیریئر کو توڑا گیا ہے، لیکن یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں جس کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔
اس کے بعد منصوبہ پھر سے تنقید کی زد میں آیا اور کچھ رپورٹیں بھی دیکھنے میں آئیں۔
تقریباً ڈھائی سال سے تاخیر کا شکار پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے پر اب تک 70 ارب روپے کے لگ بھگ لاگت آ چکی ہے جب کہ ابتدا میں اس کا کل تخمیہ 32 ارب روپے لگایا گیا تھا۔
سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ منصوبے کی ڈیزائننگ، منصوبہ بندی اور تعمیراتی کام میں متعدد مرتبہ سنگین غلطیاں اور کوتاہیاں کی گئیں جس کے باعث پھر سے کئی مرتبہ سڑکوں کو توڑا اور بنایا گیا۔ یہ سلسلہ گذشتہ تقریباً دو سالوں سے رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ اس دوران منصوبہ مکمل ہوا اور نہ ذمہ داروں کا تعین ہو سکا۔
گذشتہ سال خیبر پختونخوا حکومت کی اپنی ہی معائنہ ٹیم کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ منصوبے کے ڈیزائن میں بار بار تبدیلیاں کی گئیں اور اس دوران ایسا بھی ہوا کہ کچھ حصے تعمیر کیے گئے لیکن بعد میں ان میں غلطیوں کے باعث تعمیر شدہ حصوں کو توڑا گیا جس سے اس کی لاگت میں اضافہ ہوا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ منصوبے کی ڈیزائینگ کے لئے غیر ملکی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں جس کے لئے انہیں ایک ارب روپے کے لگ بھگ رقم دی گئی لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ مزکورہ ماہرین اتنے ’نالائق‘ ثابت ہوئے کہ وہ عام سی سڑک کے سائز سے بھی واقف نہیں تھے اور نہ انہیں بس کے سائز کے بارے میں معلومات تھیں۔
گذشتہ ایک سال میں بی آر ٹی کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں ایک جیسی کئی درخواستیں دائر کی گئیں جس پر عدالت عالیہ کی طرف سے وفاقی تحقیقاتی ادارے کو اس کی انکوائری کرنے کا حکم دیا گیا لیکن سپریم کورٹ نے رواں سال فروری میں ایف آئی اے کو اس کی تحقیقات کرنےسے روک دیا۔ اور اس کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔
منصوبے کی شہرت کا عالم یہ ہے جب اس بارے میں تحریک انصاف کے وزرا یا صوبائی راہنماؤں سے بات کی جائے تو وہ ایسے آگ بگولا ہو جاتے ہیں جیسے وہ خود ہی بی آر ٹی کی آگ میں جل رہے ہوں۔ ایک وزیر شوکت یوسفزئی بیچارے اس منصوبے کا دفاع کرتے کرتے تھک گئے اور آخر کار وزرات اطلاعات سے چھٹی لے کر دوسرے محکمے میں منتقل ہو گئے۔ اس اہم کرسی پراب اجمل خان وزیر براجمان ہیں جنہیں نہ صرف اس شعبے میں صلاحتیں دکھانے کا شوق ہے بلکہ ان میں سٹیمنا بھی نظر آتا ہے۔ بہرحال ان کا بھی امتحان شروع ہو چکا ہے۔