مزاحمتی کردار کے وہ امر کارکن جنہوں نے ریاستی جبر کے خلاف آستینیں اوپر کرتے ہوئے بلوچ مزاحمت کو یاد کیا اور بلوچستان کے نواجوانوں کو للکارتے ہوئے اپنی آخری سانس اُسی مشین گن کی نوک سے لی جو اُس نے اپنے ٹیکسوں سے ایک قاتل محافظ کے ہاتھوں حفاظت کی نیت سے سپرد کیا تھا۔
نوکنڈی کے تا حدِ نگاہ ریتیلی چوٹیوں کی تہہ میں منزلِ مایوسی کی طرف سفر کرتے ہوئے میرِ کارواں،پیٹ کی بھوک،لب کی پیاس اور نم آنکھوں میں اس لیے پیدل سفر کر رہے تھے کہ ان کی گاڑیوں کی ریڈیئیٹر سپاہیوں کے ہاتھوں ریت میں بھر دیے گئے تھے،ناکارہ کر دیے گئے تھے۔ ہیلی کاپٹروں کی فضائی شیلنگ سے بچتے بچتے بھوک و افلاس کی فرشتے کے زد میں آگئے۔
چاغی کے ٹیچنگ اسپتال میں ملازم اپنے زخمی بیٹے کی آہ و فریاد میں اس لیے دہائیاں دے رہا تھا کہ میرا طالب علم بیٹا بنا بندوک کے زخمی ہے،بنا بارود کے اسپتال کی ایمرجنسی میں زندگی اور موت کی کشمکش میں سانسیں لے رہا ہے۔
بلوچستان کی ساحلی،زرخیز،بنجر،سر سبز،پُر وسائل سرزمین کے چاروں اطراف موت سائے منڈلا رہا ہے اور مظلوم آنسوؤں میں جی رہا ہے،بھوک و افلاس میں مر رہا ہے۔
کوئی قلم اٹھائے تو بھی لاپتہ،کوئی پک اپ چلائے بھی موت کی زد میں۔۔۔
حمیداللہ سیندک و ریکوڈک کی ملکیت رکھنے کے باوجود زندگی اور موت کی آنکھ مچولی میں صبح و شامیں نوکنڈی کے کربلا میں گزار رہا ہے۔
حمید جان کے وسائلوں پر کوئی پچیس فیصد چاہتا ہے اور کوئی مونچھوں پہ ہاتھ رکھ کر اپنی فیصد یا پچاس فیصد کی جنگ میں اپنی مفادات کے دروازے کو کھولنے کی کوشش کرتا ہے اور حمید صرف پک اپ چلانا چاہتا ہے،زندگی چاہتا ہے اور جان کی حفاظت چاہتا ہے۔
اب حمید کو کون سمجھائے کہ تمھاری سیندک،تمھارے ریکوڈک کے فیصلے اقتدار کے اُس بند کمرے میں کیے جاتے ہیں جہاں نہ آپ ہوتے ہیں اور نہ ہی آپ کا نمائندہ۔ وہاں وہی ہوتے ہیں جو آپکو اس مقام تک لے آئے ہیں۔
حمید اور حسین کے کربلا میں صرف اتنا فرق ہے کہ حسین بادشاہت،اصول پرستی اور بیعت کے پاسداری نہ رکھنے والے مکار یزیدوں کے ہاتھوں شہید ہوئے اور حمید اللہ بلوچ دو وقت کی روٹی کے خلاف مزاحمت میں شہید ہوئے۔
ورنہ دوکھا تو دونوں کھا چکے ہیں اور حمید اب بھی روزی روٹی کی تنگی کے خاطر یزید کی جھوٹ،دوکھا اور لوٹ ماری کی سازش کا متاثر بلوچ ہے۔