نوبت یہاں تک پہنچی کہ کبھی کبھار کوئی اکا دکا فلم مل جاتی۔ اسی دوران ہدایتکار اور پروڈیوسر برج سدانہ سے عشق ہوا تو فلمی دنیا کو خیرباد کہہ دیا۔ پسند کی شادی ہونے کے باوجود اس جوڑے میں لڑائی جھگڑا ہوتا رہتا۔ تلخیاں ہی تلخیاں گھر میں بھری رہتیں حالانکہ ان کے آنگن میں کمل سدھانہ اور نمرتا جیسے دو پیارے پیارے پھول بھی کھلے لیکن پھر بھی رنجشیں اور اختلافات میں کمی نہیں آئی۔
کمل سدانہ اپنی 20ویں سالگرہ کا جشن زبردست انداز میں منانا چاہتے تھے، اس مقصد کے لئے انہوں نے دوستوں کو مدعو کر رکھا تھا، گھر کے بالائی حصے پر پارٹی چل رہی تھی۔ کمل سدانہ اس اعتبار سے خوش تھے کہ والد برج سدھانہ فلمی تقریبات میں برملا کہتے کہ جب بیٹا بیس، اکیس سال کا ہو جائے گا تو وہ بطور ہیرو انہیں کسی فلم میں متعارف کرائیں گے۔ آنے والے روشن مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے کمل سدانہ اپنے دوستوں کی محفل میں گم تھے، جن کے سامنے شیخی مار رہے تھے کہ دیکھنا کیسے ان کے نام کے پوسٹرز بمبئی میں سجے ہوں گے۔
اسی دوران انہیں نچلی منزل سے والدین کے لڑنے جھگڑنے کی آوازیں آنا شروع ہوئیں تو انہوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ بچپن سے وہ ان سب باتوں کے عادی تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ تھوڑی دیر میں حالات معمول پر آ جائیں گے لیکن پھر آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں۔ وہ جانتے تھے کہ والد حد سے زیادہ مے نوشی جب کرتے تھے تو آپے سے باہر ہو جاتے۔ اسی لئے دوستوں کے سامنے خفت اور شرمندگی نہ اٹھانی پڑے، کمل سدھانہ نے ٹیپ ریکارڈر پر میوزک اور تیز کر دی۔
کمل سدانہ رقص کر رہے تھے۔ اچانک ہی گولی چلنے کی آواز آئی تو ان کے ہی نہیں دوستوں کے ہوش بھی اڑ گئے۔ کمل سدانہ بھاگتے دوڑتے سیڑھیاں اترتے نیچے والی منزل میں پہنچے تو وہاں والدہ سعیدہ خان زمین پر خون میں لہو لہان پڑی تھیں۔ جبکہ دوسری طرف ان کے والد برج سدانہ کے ہاتھوں میں پستول تھا اور سخت نشے میں تھے۔ اسی دوران کمل سدانہ کی بہن نمرتا ماں کی طرف لپکی تو والد نے ان پر بھی گولی چلا دی۔ برج سدانہ نے جب کمل سدانہ کو دیکھا تو نشے میں اس قدر دھت تھے کہ ان پر نشانہ تاک کر گولی چلا دی، جو ان کی گردن کو چھوتی ہوئی نکل گئی۔ اس ساری صورتحال میں کمل سدانہ کے اوسان ایسے خطا ہوئے کہ وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑے۔
کمل سدانہ کو ہوش آیا تو خود کو ہسپتال میں پایا۔ پولیس اور دوستوں نے انہیں تین صدموں سے دوچار کیا۔ انہیں معلوم ہوا کہ اب اس دنیا میں والدہ رہیں اور نہ ہی بہن۔ یہی نہیں والد برج سدانہ نے دونوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد خود کو بھی گولی مار کر خود کشی کر لی۔ کمل سدانہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ بھری دنیا میں وہ اکیلے رہ گئے ہیں۔ ماں رہیں نہ بہن اور نہ والد۔
کہا جاتا ہے کہ برج سدانہ دراصل حد سے زیادہ مے نوشی اس لئے بھی کرنے لگے تھے کیونکہ اس واقعے کے 5 سال پہلے انہوں نے سلمیٰ آغا اور راجیش کھنہ کو لے کر فلم ’اونچے لوگ‘ بنائی تھی، جس نے زبردست کاروبار کیا۔ یہ وہی فلم تھی، جو 1983 کی پاکستانی فلم ’دہلیز‘ کی کاربن کاپی تھی۔ ’اونچے لوگ‘ کے بعد انہوں نے دھرمیندر، شبانہ اعظمی، سنجے دت، جیا پردا اور ڈینی جیسی بڑی کاسٹ کے ساتھ فلم ’مردوں والی بات ‘پیش کی، جس پر سرمایہ پانی کی طرح بہایا گیا لیکن فلم باکس آفس پر پٹ گئی۔ جبھی برج سدانہ جہاں قرضوں میں ڈوبے، وہیں ان کے اندر اس ناکامی سے چڑچڑا پن زیادہ ہو گیا تھا۔ شریک سفر کے ساتھ تلخ کلامی اور مارپیٹ میں اور اضافہ ہوا، ساتھ ہی وہ شراب نوشی میں ڈوبتے چلے گئے۔
کمل سدانہ پر تو جیسے غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔ کئی مہینوں تک وہ اس رنج و الم میں رہے۔ سالگرہ والے دن خونی رشتوں سے ایسے بچھڑ جائیں گے، انہوں نے ایسا کبھی سوچا نہیں تھا۔ اس موقع پر ان کے والد کے قریبی دوست راہول رویل نے بہت سہارا دیا۔ جنہوں نے برج سدانہ کے بیٹے کو ہیرو بنانے کا خواب سچ کر دکھایا۔ 1992 میں راہول رویل نے فلم ’بے خودی‘ میں کاجل اور کمل سدھانہ کو پہلی بار بڑے پردے کی زینت بنایا۔ اس اعتبار سے کمل سدھانہ کا کریئر بالکل والدہ کی پہلی فلم ’کانچ کی گڑیا‘ کی طرح رہا۔ ان کی پہلی فلم بھی ہٹ ہوئی تھی اور ’بے خودی‘ نے بھی سنیما گھروں میں تہلکہ مچایا۔
کمل سدانہ نے اس کے بعد دیویا بھارتی کی فلم ’رنگ‘ میں کام کیا، یہ بھی فلم سپر ہٹ رہی۔ اسی طرح دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی پہلی فلم کی ہیروئن کاجل کی اگلی فلم ’بازی گر‘ بھی باکس آفس پر کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ کاجل نے تو پھر پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا مگر کمل سدانہ کا کریئر پھر دھیرے دھیرے زوال پذیر ہوتا گیا اور پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ وہ فلموں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دور ہو گئے۔ والد کی طرح ہدایتکاری میں بھی قدم رکھا لیکن یہاں بھی ناکامی ملی۔
کمل سدانہ کہتے ہیں کہ سالگرہ والے دن انہیں والدہ، بہن اور باپ کی موت کا خوف ناک اور بھیانک تحفہ ایسا ملا کہ انہوں نے زندگی بھر سالگرہ نہ منانے کا عہد کر لیا۔