اسی زہریلی سوچ سے پھر ایک ایسا معاشرہ جنم لیتا ہے جو عورت کو تنہا اور مشکل میں دیکھ کر بجائے اس کے ساتھ ہمدردی کرنے کے، اس کو ہراساں کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ مینارِ پاکستان پر 14 اگست کو جس لڑکی کے ساتھ یہ سب ہوا، یہ صرف ایک واقعہ ہے۔ سوشل میڈیا پر اس وقت وائرل ہے، اس لئے ہر شخص دنگ ہے کہ یہ کیا ہو گیا؟ یہ کیسے ہو گیا؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ نہ تو پہلی مرتبہ ہوا ہے، نہ آخری بار۔ کوئی بھی خاتون، آپ کے گھر میں موجود یا آپ سے باہر، جو آپ پر بھروسہ کر سکتی ہو، اس سے کبھی پوچھ کر دیکھیں کہ کیا اس نے بازاروں میں پیچھا کرتی نظروں کا سامنا کیا ہے؟ کیا اس پر دکانداروں نے آوازے کسے ہیں؟ کیا اس کو راہ چلتے ہوئے پاس سے گزرنے والی موٹر سائیکل پر بیٹھے اوباش نوجوانوں نے ہاتھ لگایا ہے؟ کیا اپنے ہی رشتہ دار مردوں نے کبھی تنہائی کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے؟ کیا سکول، کالج، یونیورسٹی میں ہر بار دروازے سے باہر آتے اور اندر جاتے ہوئے اس کو رقیق جملوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا؟ مجمعوں میں اس کے ساتھ بھی ویسا ہی ہوا ہے جیسا مینارِ پاکستان پر اس بے آسرا لڑکی کے ساتھ کیا گیا؟ آپ یقین کیجئے بس بھروسے کی بات ہے، آپ کو ایسی ایسی کہانیاں سننے کو ملیں گی کہ رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ کبھی کسی لڑکی کا فیسبک اکاؤنٹ کچھ دنوں کے لئے اپنے پاس رکھ کے دیکھیں۔ تحقیق کے لئے کوئی آئی ڈی بنا لیجئے۔ آپ تصور نہیں کر سکتے کہ یہ لڑکیاں کیا کچھ جھیلتی ہیں۔
اس لڑکی نے عام شلوار قمیض پہن رکھی تھی۔ ایسے ہی کپڑے ہمارے گھروں میں خواتین پہن کر گھومتی ہیں۔ نور مقدم مغربی طرز کا لباس ریبِ تن کرتی تھی۔ راولپنڈی میں گذشتہ ماہ جس لڑکی کو ایک موٹر سائیکل پر آتے شخص نے ہراساں کیا، اس نے برقعہ اوڑھ رکھا تھا۔ کپڑوں سے کوئی فرق پڑتا تو ان تینوں معاملات میں لڑکیوں کا تجربہ مختلف ہوتا۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ موٹروے پر اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھی خاتون اپنی گاڑی میں تھی۔ یہ لڑکی بھرے مجمعے میں تھی۔ درندوں نے دونوں کے ساتھ کیا کیا، آپ جانتے ہیں۔ لیکن جیسے نور مقدم کے قاتل کو حمایتی میسر آ گئے ہیں، موٹروے سانحے کا شکار خاتون کو لاہور پولیس سربراہ نے خود واقعے کا ذمہ دار قرار دیا، اسی طرح اس لڑکی سے بھی سوال اٹھانے والے پیدا ہو چکے ہیں۔ وہاں کرنے کیا گئی تھی؟ ٹک ٹاک ویڈیو بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ جب اتنے مردوں میں جاؤ گی تو یہ تو ہوگا نا۔۔۔
مردوں کے بنائے اس معاشرے نے اپنے لئے آسانیاں پیدا کر رکھی ہیں۔ خود کو جانور قرار دے کر سوالوں سے جان چھوٹتی ہے، تو ہاں ہم جانور ہی سہی۔ لیکن اپنے اطوار تبدیل کرنے کو تیار نہیں۔ ابھی انہی اوباش لوگوں سے پوچھیے ملک میں جمہوریت ہونی چاہیے یا شریعت کا نظام آنا چاہیے، جواب دیں گے شریعت ہونی چاہیے۔ فیسبک اور واٹس ایپ پر صبح سے شام تک مذہبی میسجز بھیجیں گے لیکن عورتوں کے بارے میں وہ وہ مغلظات بکیں گے کہ الامان۔ کبھی پوچھ کر دیکھیے ان مردوں سے کہ عورت مارچ پر ان کا کیا خیال ہے۔ یہ بیہودہ قسم کی گالیاں دیں گے اور ساتھ یاد کروائیں گے کہ اسلام نے ان کو تمام حقوق پہلے ہی دے رکھے ہیں۔ ایک ہی جملے میں مذہبی حوالے اور گالیاں ساتھ ساتھ دیتے ان کو شرم نہیں آئے گی، کوئی گستاخی کا الزام بھی نہیں لگائے گا ان پر کیونکہ بقول شخصے یہ تو ہمارا کلچر ہے۔ نور مقدم کی بھی ایسی ہی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی تھیں۔ کہیں وہ عورتوں کے حقوق کے لئے بینر اٹھائے کھڑی تھی، کہیں موٹروے حادثے کے خلاف احتجاج کرتی نظر آ رہی تھی۔ قتل ہونے کے بعد یہی تصاویر اس کے لئے دشنام کی وجہ بنیں۔ ایسی باتیں کرو گی تو یہی انجام ہوگا نا۔ ایسی ہی عورتیں اس طرح کے مردوں کے ساتھ ہوتی ہیں، پھر قتل ہوتی ہیں تو شور کیسا؟
یہ وہ جملے ہیں جو ہمارے سوشل میڈیا پر ہی نہیں، ہمارے گھروں کے اندر ہمیں آئے روز سننے کو ملتے ہیں۔ 'لو بیٹھ گئی ٹھیک سے' کے پلے کارڈ پر تنقید کرنے والے راہ جاتی لڑکی کو ہراساں کرنے والوں کو دیکھ کر بھی خاموش رہتے ہیں۔ اور کہیں لڑکی نظر آ جائے تو ہزاروں سالوں کا ارتقا کا عمل ایک طرف، گِدھوں کی طرح ان کے گوشت کو بنبھوڑنے کے لئے پِل پڑتے ہیں۔
یہ محض فرسٹریشن کی بات نہیں۔ کہ انہوں نے کبھی لڑکی نہیں دیکھی، اس لئے جب دیکھا تو پاگل ہو گئے۔ یہ کوئی اور مرض ہے۔ خود سری ہے۔ یا کوئی ظلم دیکھ دیکھ کر خود بھی کسی پر ظلم کرنے کی تسکین کا تجربہ کرنا۔ جو بھی ہے، بہت ہولناک ہے۔ یہ منظر ہمارے معاشرے کی بالکل درست عکاسی کر رہا تھا۔ بے سمت، بے ہنگم، صحیح اور غلط میں تفریق کرنے کی صلاحیت سے عاری، تعفن زدہ!