مرحوم صدر ضیاء الحق سے شدید نفرت رکھنے والے پیپلیوں نے عوام میں مشہور کر دیا تھا کہ طیارہ حادثے میں جاں بحق ہوئے سابق صدر کے جسد خاکی کی بجائے ایک mouth skeleton کو دفن کیا گیا تھا۔ پیپلزپارٹی کی ضیاء سے نفرت سمجھ آتی ہے، مگر یہاں سوال یہ ہے کہ کیا مرحوم ضیاء الحق واقعی اس دنیا سے چلے گئے؟ اگر پی پی کی موجودہ سیاست کو دیکھا جائے تو لگتا ہے، ہمارا ضیاء زندہ ہے۔
ہمارے لبرل، سوشلسٹ اور این جی اوز والوں نے ایک اور کہانی مشہور کی تھی کہ چونسہ آم کی پیٹیاں رکھی گئی تھیں جن میں شاید کوئی دھماکہ خیز مواد تھا جس کی وجہ سے صدر کا سی 130 طیارہ پھٹ گیا تھا۔ یہی بھٹو محب لکھتے تھے "عجیب حادثہ تھا، جس میں ایک شہید اور 30 ہلاک تھے"۔ یہ لوگ ہر سال 18 اگست کو فیس بُک اور سوشل میڈیا پر اس طرح کے کمنٹ لکھتے ہیں۔ "امب نوں سلام، وچ رکھے بمب نوں سلام"، "جمہوریت پر چونسہ آم کا احسان نہ بھولا جائے"، "چونسہ آم کی تصویر کے اندر 18 اگست لکھنا وغیرہ وغیرہ۔ مگر ان تمام سوشلسٹوں، لبرلوں، اور این جی او والاز کو وعید ہو کہ جو کچھ انہوں نے پاکستان کے لوگوں کے ساتھ کیا اور پھر جو کچھ ان کے ساتھ حکومتوں اور اداروں نے کیا، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارا ضیاء زندہ ہے۔
ہمارے ضیاء زندہ کے زندہ ہونے کی شاندار دلیل ہے کہ 75ویں یومِ آزادی پر مولوی تقی عثمانی اور صحافی انصار عباسی صحافی کو رقص وسرور نظر آیا۔ پشاور میں عورتوں کے جھولے لینے پر شریعت مدار نوجوانوں کو اسلام اور پاکستان میں خطرہ نظر آیا۔ عورتوں کے حقوق کی کوئی اور کسی قسم کی عمومی وخصوصی خلاف ورزی ہو تو شاید لوگوں کو وہ خلاف ورزی نظر آتی ہو یا نہ آتی ہو مگر راقم کو اس میں اپنا ضیاء زندہ نظر آتا ہے۔ پاکستان کے کسی علاقے میں کسی انتخابی سرگرمی میں جب علاقے سے صالحین مرد متفقہ فیصلہ کرتے ہیں کہ عورتیں ووٹ نہیں ڈالیں گی تو یقین کریں میرا زندہ ضیاء مجھ سے کلام بھی کر لیتا ہے۔
ایک ظالم نے ساغر صدیقی کے شعر کو ایسی پچھاڑ ماری کہ سن کر راقم پر رِقت طاری ہو گئی۔ شاعر کہتا ہے:
آؤ حقِ نسواں کھائیں بقائمی ہوش و حواس
کون کہتا ہے، ہمیں ضیاء یاد نہیں
صاحبانِ ایمان اور روزہ دار مومن جب منیب ومفتی کی چاند ماری بوقت عید ورمضان دیکھتے ہیں تو یقین کریں راقم اپنے بٹوے میں لگی صدر ضیاء الحق کی تصویر کو دیکھ کر کہتا ہے
میرا چاند مجھے آیا ہے نظر
اے عید ورمضاں تھوڑا درگزر
آپ محترم قارئین کو یقین نہیں آئے گا جب کبھی بھی اسلامی نظریاتی کونسل کسی قانون سازی (جو کہ عمومی طور پر بنیادی انسانی حقوق سے متعلقہ ہوتی ہے) پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتی ہے تو یقین جانیں یہ ضیاء صاحب کے عالم رویا سے دئیے گئے ڈائریکٹ آرڈرز ہوتے ہیں۔
افغانستان میں ہماری تزویراتی گہرائی اور کراچی میں ہوئی گہری لسانی تفریق ہمارے ضیاء کے زندہ ہونے وہ دلیلیں ہیں جن پر ناز نہ کرنا زیادتی ہی ہوگی۔ بانی متحدہ نے، ان ایام میں جب وہ راج دلارے تھے، ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ کراچی میں ہونے والے پختونوں کے قتل کو تو پورا ملک دیکھتا ہے۔ کیا مہاجروں کے خاموش قبرستانوں پر بھی میڈیا کبھی بولا ہے۔ یقین مانیں بانی متحدہ کے ان الفاظ نے ہمارے ضیاء کے زندہ ہونے پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی تھی۔
میرے عالی دماغ قارئین کو شاید لبیک لبیک والے گروپ کی صدائیں صرف لبیک لبیک ہی سنائی دیتی ہوں گی۔ مگر راقم کو تو ضیاء ضیاء ہی سنائی دیتا ہے۔ انگریزی کے لفظ ریفرنڈم کا اردو ترجمہ اب بھی ضیاء الحق آتا ہے۔ تصدیق کے لئے گوگل ٹرانسلیٹ پر جا کر لکھ لیں۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تلاوتِ ونعت کی جب بھی بازگشت ہوتی ہے ضیاء زندہ ہو جاتا ہے۔
ایک لوفر صحافی محمد حنیف کی انگریزی میں لکھی کتاب "The Case of Exploding Mangos" میں بھی درج ہے کہ ضیاء زندہ ہے۔ مگر کچھ حاسدین نے اس کتاب کی اردو ٹرانسلیشن کروا کر یہ مذموم سازش کی کہ محمد حنیف کوئی توپ صحافی ہے جو لکھتا ہے ضیاء صاحب آموں کے پھٹنے سے جاں بحق ہوئے تھے۔ یہ تو بھلا ہو ہمارے اداروں کا جو فوری حرکت میں آئے اور صرف اردو والی کتاب مارکیٹ سے اٹھا لی تاکہ پیغام دیا جائے کہ ضیاء زندہ ہے۔
آپ یقین مانیں جب صالحین سوشل میڈیا پر بیٹھ کر اسلامی نظام کے نفاذ کی بات کرتے ہیں۔ جب کوئی دیدہ ور ریاست مدینہ کا نعرہ لگاتا ہے۔ جب عورت مارچ کے خلاف مولانا صاحبان جھاگ دار گفتگو کرتے ہیں۔ جب ہواؤں میں کافر کافر اور لبیک لبیک کی صدائیں گونجتی ہیں۔ جب نائی اور چائے کے ہوٹل پر لکھا دیکھا جاتا ہے "یہاں مذہبی اور سیاسی گفتگو سے پرہیز کریں" تو یقین مانیں ہمارا ضیاء زندہ ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی والے خالی نعرہ لگاتے ہیں "ہر گھر سے بھٹو نکلے گا"۔ یہ سیاسی معصوم لوگ اتنا بھی نہیں جانتے کہ جب گھروں میں ضیاء زندہ ہو تو وہاں سے بھٹو نہیں نکلتے۔