مطیع اللہ جان کو انٹرویو دیتے ہوئے فواد چودھری نے کہا کہ ملک ریاض کے فرزند علی ریاض کے خلاف برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی ( این سی اے) نے انکوائری کی تھی کہ آپ کے پاس 104 ملین ڈالرز کی خطیر رقم کہاں سے آئی ؟ یہ انکوائری ابھی چل رہی تھی کہ اس دوران ہی علی ریاض نے این سی اے کو ایک درخواست دی کہ میں اس میں مزید پڑنا نہیں چاہتا کیونکہ میں ایک کاروباری آدمی ہوں۔ میں یہ پیسہ حکومت پاکستان کو واپس کر دیتا ہوں۔ اس لئے استدعا ہے کہ میرے خلاف کریمنل انکوائری بند کر دی جائے۔ میری اور آپ کی سیٹلمنٹ خفیہ رہے گی۔ فواد چودھری نے کہا کہ اس کے بعد ہمارے پاس دو آپشنز تھیں کہ ہم یا تو یہ رقم پاکستان میں واپس منگوا لیں اور دوسرا یہ کہ ہم برطانیہ سے کہیں کہ آپ انکوائری کروائیں کہ یہ 104 ملین ڈالرز ملک سے باہر کیسے گئے؟ اس پر کابینہ نے کہا کہ ایسا کرنے سے تو یہ معاملہ تقریباً 15 سال تک لٹک جائے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ یہ 104 ملین ڈالرز واپس لے لے۔
https://twitter.com/Shahzad_IQBALpk/status/1559816140683153408?s=20&t=nfF1rcHj2aui7nZGCFzt6A
اس پر مطیع اللہ جان نے سوال داغا کہ تو یہ رقم حکومت پاکستان کو مل گئی تھی؟ اس پر فواد چودھری نے کہا کہ نہیں سپریم کورٹ کو ملی تھی۔ مطیع اللہ جان نے کہا کہ سپریم کورٹ کو کیوں؟ اس پر سابق وزیر نے کہا کہ کیونکہ سپریم کورٹ نے کراچی بحریہ ٹائون پر جرمانہ کرنے کا فیصلہ دیا ہوا تھا۔
مطیع اللہ جان نے کہا کہ یہ تو عوام کا پیسہ تھا، اسے حکومت پاکستان کو واپس ملنا چاہیے تھا۔ سپریم کورٹ کو یہ ادائیگی کیوں کی گئی؟ اس پر فواد چودھری نے کہا کہ وہ پیسہ ملک ریاض کو این سی اے کیساتھ سیٹلمنٹ میں ملا تھا۔
اس پر مطیع اللہ جان نے اپنے سوالات کے تابڑ توڑ حملوں کا سلسلہ جاری رکھا تو فواد چودھری بوکھلا گئے اور کہا کہ آپ ایک مرتبہ میری مکمل بات سن لیں۔ اس کے بعد سوال کریں۔
فواد چودھری نے کہا کہ ملک ریاض کے معاملے میں نہ حکومت شامل تھی اور نہ ہی سپریم کورٹ۔ اور نہ ہی ہمارے کہنے پر برطانوی خفیہ ایجنسی نے یہ کیس شروع کیا تھا۔ جو کہ اصل میں 150 ملین ڈالرز کا معاملہ تھا لیکن دونوں کے درمیان 104 ملین ڈالرز کی سیٹیلمنٹ ہو گئی تھی۔ جو این سی اے نے ملک ریاض کو واپس کئے، پی ٹی آئی حکومت کو نہیں۔ ملک ریاض کی جانب سے کہا گیا کہ ہم یہ پیسہ ملک میں واپس بھجوا دیتے ہیں لیکن حکومت پاکستان گارنٹی کرے کہ وہ ہمارا این سی اے کیساتھ ہونے والے معاہدہ پبلک نہیں کرے گی۔ اس پر مطیع اللہ جان نے کہا کہ کیوں؟ حکومت کا اس معاملے سے کیا تعلق تھا؟
پی ٹی آئی رہنما نے اس پر کہا کہ تو پھر ہم پیسہ نہ لیتے اور یہ 104 ملین ڈالرز چھوڑ دیتے؟ مطیع اللہ جان نے کہا کہ فواد چودھری صاحب آپ خود ایک وکیل ہیں۔ آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ آپ جو باتیں کر رہے ہیں، ان کی کوئی منطق بنتی ہے؟
https://twitter.com/Shahzad_IQBALpk/status/1559821135453249536?s=20&t=nfF1rcHj2aui7nZGCFzt6A
اس پر فواد چودھری نے کہا کہ بالکل بنتی ہے۔ میں اس کی مثال دیتا ہوں کہ میرا اور آپ کا کوئی معاہدہ ہوا۔ آپ مجھے کہتے ہیں کہ میں آپ کو 50 ہزار روپیہ دے دیتا ہوں لیکن اس کی کچھ شرائط ہونگی۔ آپ یہ معاہدہ پبلک نہیں کریں گے۔ اس کے بعد اس میں تھرڈ پارٹی شامل ہو جاتی ہے جو کہ حکومت ہے۔ اس پر مطیع اللہ جان نے ہنستے ہوئے کہا کہ کیا حکومت اس پرائیوٹ معاہدے کی پابند ہے؟ ملک ریاض ڈائریکٹ پیسے جمع کرائیں۔ آپ نے عوام کا پیسہ ایک جرمانے کے طور پر سپریم کورٹ میں کیوں جمع کرایا؟ اس پر فواد چودھری نے کہا کہ عوام کا پیسہ ثابت کرنے کیلئے ہمیں برطانیہ میں 15 سال کیس لڑنا پڑنا تھا۔
صحافی مطیع اللہ جان نے پوچھا کہ اچھا یہ تو بتائیں کہ این سی اے اور ملک ریاض کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا، اس میں سپریم کورٹ کا کہیں بھی ذکر تھا؟
فواد چودھری نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جی میں نے تو وہ معاہدہ دیکھا ہی نہیں، وہ سیل بند تھا۔ مطیع اللہ جان نے پوچھا کہ عمران خان کا کیا ایسا ذاتی مفاد تھا کہ انہوں نے اپنی کابینہ تک کو اس معاہدے کی بھنک تک لگنے نہیں دی؟
https://twitter.com/Shahzad_IQBALpk/status/1559822313872310272?s=20&t=nfF1rcHj2aui7nZGCFzt6A
اس پر فواد چودھری نے منطق اختیار کی کہ عمران خان کا مفاد یہ تھا کہ پیسہ پاکستان کو مل جائے۔ مطیع اللہ جان نے کہا کہ پیسہ تو حکومت کو ملا ہی نہیں آپ نے دوبارہ اسے ملک ریاض کی جیب میں ڈال دیا۔ فواد چودھری نے کہا کہ نہیں وہ پیسہ سپریم کورٹ کو مل گیا تھا۔
مطیع اللہ جان نے پوچھا کہ فواد صاحب اچھا آپ یہ بتائیں کہ این سی اے نے ملک ریاض کو جو پیسہ دینے کا معاہدہ کیا وہ قانونی پیسہ تھا یا غیر قانونی؟ اس کا جواب دیتے ہوئے فواد چودھری نے کہا کہ یہ بات تو ابھی ثابت ہونا تھی۔