انہوں نے کہا کہ کچھ صحافیوں نے ٹویٹ کیا تو ان کی دیکھا دیکھی دیگر لوگ بھی ٹویٹس کرنے لگے۔ یہ دراصل ہمارے ٹی وی اینکرز کا مسئلہ ہے۔ ان کے لئے اہم یہ ہوتا ہے کہ اس وقت ریٹنگ سب سے زیادہ کس میں آ رہی ہے۔ یہ لوگ کبھی سچ کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے۔ یہ ہمارے سینیئر ہیں لیکن میں ان کی صحافت سے اتفاق نہیں کرتا۔ ہمیں سچ بولنا چاہیے۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں ملکی سیاست اور شہباز گل کیخلاف بغاوت کیس پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر ان پر ٹارچر ہوا ہے تو اسے کھل کر بیان کرنا چاہیے۔ یہ عمل اگر کسی ایجنسی نے کیا ہے تو اس کا نام سامنے آنا چاہیے۔ لیکن اگر ایسا ہوا ہی نہیں تو ایسے جھوٹ کو ریٹنگ بڑھانے کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
اعزاز سید نے کہا کہ پی ٹی آئی تو چاہتی ہی یہ ہے کہ شہباز گل ایک ایشو بنا رہے۔ عمران خان اس وقت یہ نہیں چاہتے کہ شہباز گل باہر آ جائے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ اندر رہیں اور روزانہ میڈیا پر ان کے حوالے سے کوئی نہ کوئی بات نکلتی رہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ علی وزیر کو دو سال ہو گئے وہ ابھی تک سلاخوں کے پیچھے ہیں لیکن ان پر جو ٹارچر کیا گیا، ہم اس پر تو کوئی بات نہیں کرتے۔ اس بندے کیخلاف کوئی سیاسی جماعت کھڑی نہیں ہوئی۔ اس کے حق میں آج تک کسی ٹی وی پر پروگرام نہیں کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ لوگ شہباز گل پر ٹارچر کی بات کر رہے ہیں۔ پنجاب پولیس کا اگر کسی کو ایک بھی ''لتر'' لگ جائے تو وہ چار دن کھڑا نہیں ہو سکتا۔ ان کے وکیل فیصل چودھری نے آج عدالت میں ثابت کرنے کی کوشش کی کہ شہباز گل پمز ہسپتال میں نیم بے ہوشی کی حالت میں پڑے ہیں۔ حالانکہ شہباز گل کو جس وی وی پی آئی کمرے میں رکھا گیا ہے اس میں آصف زرداری، خورشید شاہ، اور نہ جانے کون کون سی شخصیات رہ چکی ہیں۔
سینئر صحافی کا کہنا تھا کہ تونسہ میں سیلاب سے 3 لاکھ لوگ بے گھر ہو گئے لیکن ہمارے میڈیا پر ان کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی بلکہ شہباز گل کا ایشو چل رہا ہے۔ جو کسی سیاسی جماعت کا منتخب نمائندہ تک نہیں ہے۔