تاہم، یہ ایمرجنسی لگانے کی ضرورت کیوں پیش آئی، اس حوالے سے مین سٹریم میڈیا میں بہت ہی کم بات کی گئی ہے۔ معاملہ 9 مارچ 2007 سے شروع ہوتا ہے جب جنرل پرویز مشرف نے فوج کے چند سینیئر افسران کی موجودگی میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو ایوانِ صدر طلب کیا اور ان کو عہدے سے علیحدہ ہو جانے کا حکم دیا۔ اس سے قبل اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز افتخار چودھری کے خلاف ایک ریفرنس صدر مشرف کو بھجوا چکے تھے۔ افتخار چودھری کو مشورہ دیا گیا کہ ان کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوایا جا سکتا ہے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ وہ عہدے سے علیحدہ ہو جائیں۔ لیکن افتخار چودھری نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔
ان کے بحال ہوتے ہی انہوں نے قریب پانچ سال سے جیل میں بغاوت کے مقدمے میں قید مسلم لیگ نواز کے رہنما اور پارٹی صدر مخدوم جاوہد ہاشمی کو رہا کر دیا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف جو اس وقت جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے، انہوں نے بھی پاکستان واپس آنے کی اجازت سپریم کورٹ ہی سے طلب کی۔ سپریم کورٹ نے ان کے بھی حق میں فیصلہ کیا۔ 10 ستمبر 2007 کو نواز شریف اسلام آباد واپس پہنچے تو انہیں انتظامیہ نے ایئر پورٹ سے باہر نکلنے نہ دیا اور ایک اور جہاز پر سوار کروا کے سعودی عرب بھیج دیا۔
اس اقدام کے خلاف بھی سپریم کورٹ میں درخواست جمع کروائی گئی اور عدالت نے اسے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔
اس دوران محترمہ بینظیر بھٹو اور پرویز مشرف کے درمیان مذاکرات جاری تھے اور بالآخر ان کے درمیان معاہدہ طے پا گیا کہ بینظیر بھٹو کو پاکستان آنے کی اجازت دے دی جائے گی اور ان کے خلاف مقدمات کو ختم کرنے کے لئے این آر او جاری کیا جائے گا۔ بدلے میں پیپلز پارٹی جنرل مشرف کے باوردی صدر منتخب ہونے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔
5 اکتوبر کو یہ این آر او یعنی National Reconciliation Ordinance جاری کیا گیا اور 6 اکتوبر کو جب دیگر تمام اپوزیشن جماعتیں پارلیمنٹ سے استعفے دے کر جنرل مشرف کے صدارتی الیکشن کو متنازع بنانے کی آخری کوشش کر رہی تھیں تو پیپلز پارٹی نے استعفے دینے کے بجائے پارلیمنٹ میں رہتے ہوئے انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور یوں جنرل مشرف کو باوردی انتخاب کے لئے جو اخلاقی اور قانونی جواز چاہیے تھا، وہ مل گیا۔
یہ این آر او ہی تھا جس نے 18 اکتوبر 2007 کو بینظیر بھٹو اور پھر 25 نومبر 2007 کو نواز شریف کی وطن واپسی کی راہ ہموار کی۔
تاہم، یہ دونوں اقدامات، یعنی این آر او اور جنرل مشرف کا باوردی صدارتی انتخاب، سپریم کورٹ میں چیلنج ہوئے۔ اور سپریم کورٹ کے ججز کے ریمارکس سے واضح تھا کہ ان کا موڈ دونوں ہی اقدامات کو آئینی طور پر ناجائز قرار دینے کا تھا۔
واضح رہے کہ بینظیر بھٹو اور جنرل مشرف کے درمیان مذاکرات کا ضامن کوئی اور نہیں بلکہ امریکی حکومت تھی۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ پر اس وقت تک واضح ہو چکا تھا کہ جنرل مشرف میں یہ capacity نہیں کہ وہ طالبان کے خلاف امریکی اہداف حاصل کر سکیں۔ 2006 سے 2008 کے درمیان امریکہ کی جانب سے صدر مشرف پر مختلف طریقوں سے افغانستان میں double game کھیلنے کا الزام بھی لگایا جا چکا تھا۔ لہٰذا امریکہ اس وقت جنرل مشرف سے جان چھڑانا چاہتا تھا اور اسی لئے ایک مکمل exit strategy تیار کی گئی تھی جس کے تحت بینظیر بھٹو کی اقتدار میں واپسی کی راہ ہموار کی جا رہی تھی