پی ٹی آئی کے سابق رہنما نے کہا کہ کوئی شخص مقدمہ شروع ہونے سے پہلے اپنے ثبوت ڈسکس نہیں کرتا۔ہتک عزت کا قانون عام قوانین سے مختلف ہے لیکن کچھ چیزیں قدر مشترک بھی ہیں۔اگر میرے خلاف کوئی مقدمہ فائل ہوتا ہے تو ثبوت لانے کی ذمہ داری پراسیکیوشن پر ہوتی ہے مجھے کچھ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
میں نے جو بات کی ہے اس سے بہت زیادہ باتیں لوگ کرتے رہے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کس بنیاد پر یہ باتیں کی گئی ہیں یہ ثبوت کے معاملات ہیں وہ آپ سے ڈسکس نہیں کر سکتا۔ میری سطح کا شخص جو قانون جانتا ہے وہ بلاوجہ کوئی بات نہیں کرے گا ۔
ایک انٹرویو کے دوران جسٹس وجیہ الدین سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ کے پاس پچاس لاکھ کیا تیس لاکھ لینے کے ثبوت موجود ہیں؟ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں میڈیا پر کیوں ثبوت ڈسکس کروں،کوئی شخص مقدمہ شروع ہونے سے پہلے اپنے ثبوت ڈسکس نہیں کرتا۔
دوسری جانب وزیراعظم نے وزراء کو جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین کے بیانات پر ردعمل سے روک دیا اور کہا ہے کہ ایسی باتوں پر بات کر کے وقت ضائع نہ کریں۔وزیراعظم کی زیر صدارت پارٹی ترجمانوں اور رہنماؤں کا اجلاس ہوا، جس میں جسٹس (ر) وجیہہ الدین کے الزامات پر بھی گفتگو کی گئی۔
اس موقع پر عمران خان نے کہا کہ جسٹس (ر) وجیہہ الدین کے بیانات کو میڈیا نے اتنا اچھالا، میرے کوئی لاکھوں کے اخراجات نہیں، اپوزیشن کی کرپشن پر کوئی بات نہیں کرتا، اپوزیشن لیڈرز نے ملکی خزانہ لوٹا، اس پر زیادہ بات ہونی چاہیے۔
وزیراعظم اور شرکاء کو کیس کے قانونی نکات پر بریفنگ دی گئی۔ عمران خان نے منی لانڈرنگ کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کا عزم کرتے ہوئے کہا کہ قوم کا پیسہ منی لانڈرنگ میں استعمال ہوا، احتساب سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔