آپ سے یہ نہیں پوچھا جاتا کہ آپ کی دماغی صحت متوازن ہے یا نہیں؟ آپ سے یہ بھی نہیں کہا جاتا کہ ثبوت دیں کہ آپ ہندو، مسیحی یا بدھ مت کے پیروکار تو نہیں ہے لیکن جو فارم ہم گذشتہ پینتیس برسوں سے بھرتے چلے آ رہے ہیں اس میں آپ کو ایک ہی چیز کی وضاحت دینا پڑتی ہے کہ "میں احمدی (قادیانی) نہیں ہوں اور میں ان کے لاہوری فرقے سے وابستہ نہیں ہوں کیونکہ وہ کافر ہیں"۔
قائد اعظم کی موت ایک معمہ ہے جو ابھی بھی جوابات کی متقاضی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ اگر آج کے دور میں قائد اعظم کے لئے ایمبولینس کوئٹہ سے روانہ ہوتی، تو اسے درمیان میں ہی کہیں روک لیا جاتا اور قائد اعظم محمد علی جناح سے ان کا شناختی کارڈ دیکھنے کا مطالبہ کیا جاتا اور اگر جس فرقے سے وہ تعلق رکھتے تھے اس کی شناخت ظاہر ہو جاتی تو شاید وہ وہاں سے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب نہ ہوتے۔ ہمیشہ سے ہی بائیں بازو اور دائیں بازو کے افراد کے درمیان اس بات پر اختلاف رہا کہ کیا قائد اعظم مذہبی ریاست چاہتے تھے یا پھر پاکستان کیلئے جدید ریاست کا تصور اپنانا چاہتے تھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ قائد اعظم کس قسم کے پاکستان کو تعمیر کرنا چاہتے تھے لیکن ہم سب اس بات پر اتفاق ضرور کر سکتے ییں کہ وہ کم سے کم ایسا وطن نہیں چاہتے تھے جیسا آج کل بن چکا ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=j8qLZSACxrQ
جب آپ شناختی کارڈ کے حصول کیلئے فارم بھرتے ہیں تو آپ سے ایک ایسا سوال پوچھا جاتا ہے جو دنیا میں کسی اور مسلمان اکثریت والے ملک میں کسی مسلمان سے نہیں پوچھا جاتا ہے۔ آپ سے یہ نہیں پوچھا جاتا کہ آپ کی دماغی صحت متوازن ہے یا نہیں؟ آپ سے یہ بھی نہیں کہا جاتا کہ ثبوت دیں کہ آپ ہندو، مسیحی یا بدھ مت کے پیروکار تو نہیں ہیں لیکن جو فارم ہم گذشتہ پینتیس برسوں سے بھرتے چلے آ رہے ہیں اس میں آپ کو ایک ہی چیز کی وخاحت دینا پڑتی ہے کہ "میں احمدی (قادیانی) نہیں ہوں اور میں ان کے لاہوری فرقے سے وابستہ نہیں ہوں کیونکہ وہ کافر ہیں۔
پاکستان کا قانون کہتا ہے:
کوئی بھی ایسا شخص جس کا تعلق قادیانی گروہ یا لاہوری گروہ سے ہو اور اپنے آپ کو "احمدی" کہلواتا ہو یا کسی اور نام سے، جو الفاظ (خواہ وہ بولے گئے ہوں یا لکھے گئے ہوں) یا کسی بھی ایسے فعل سے جو نظر آتا ہو، اگر وہ اپنی عبادت گاہ کی جگہ کو "مسجد" قرار دے اسے تین سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے اور جرمانہ کیا جا سکتا ہے"۔ قادیانی یا لاہوری گروپ کا کوئی بھی فرد (جو اپنے آپ کو احمدی یا کسی اور نام سے بلواتا ہو)، جو براہ راست یا بلاواسطہ اپنےآپ کو مسلمان ظاہر کرے، یا دوسروں کو اپنا عقیدہ اپنانے کی دعوت دے یا الفاظ (خطابت کی صورت میں ہوں یا تحریر کی) یا پھر کسی بھی دکھائی دینے والے عمل کے ذریعے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے کا باعث بنے تو اسے تین سال تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے اور جرمانہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے"۔
https://www.youtube.com/watch?v=HKWZ8b2sRhk
مجھے یاد ہے کہ چند سال قبل لاہور میں ایک احمدی عبادت گاہ پر حملہ ہوا تھا اور حملہ آور برین واشڈ نوجوان لڑکے تھے اور مجھے یہ یقین ہے کہ انہیں یہ حقیقت معلوم نہیں تھی کہ جن لوگوں پر وہ حملہ آور ہوئے وہ پینتیس برس قبل قانونی اعتبار سے مسلمان قرار دیے جاتے تھے۔
https://www.youtube.com/watch?v=tpTqafF3IvM
پاکستان کو ہمیشہ سے ہی ایک تجربہ گاہ بننا تھا۔ جب ایک تجربہ کامیاب ہوتا ہے تو پھر اسے نچلی سطح تک نافذ کیا جاتا ہے۔ جب ہم نے کامیابی سے نئے کافر پیدا کرنے کا تجربہ کر لیا تو یہ تجربہ وہیں تک تھما نہیں۔ 80 اور 90 کی دہائی میں ہر دوسری مسجد سے شیعہ کافر شیعہ کافر کے نعرے بلند ہوتے تھے اور شیعہ عالموں، ڈاکٹروں، اساتذہ اور دانشوروں کو اس طرح سے اٹھا کر مارا گیا کہ احمدیوں نے بھی شکر ادا کیا ہو گا کہ "شکر خدا کا ہم شیعہ نہیں ہیں"۔ ان تمام ادوار کے بعد اب کافر تخلیق کرنے کا یہ کاروبار اس قدر پھیل چکا ہے کہ کوئی بھی ایسا شخص جو اپنے آپ کو مسلمان قرار دیتا ہے اس کو کافر قرار دینے کیلئے کم سے کم دو یا اس سے زیادہ مسلمان ہمہ وقت موجود رہتے ہیں۔ جب ہم شناختی کارڈ کے فارم پر دستخط کرتے ہیں اور ساتھ ہی کسی کو کافر قرار دے دیتے ہیں تو ہم فتووں کیلئے دروازے کھول دیتے ہیں جو بعد میں ہم پر بھی صادر ہوتے ہیں کیونکہ مساجد پر حملوں کے دوران جو افراد ہلاک ہوئے وہ ہماری نگاہ میں "بدترین کافر" تھے۔ ان لوگوں کیلئے جنت میں جگہ ملنے کی دعا کرنا بھی کفر کا مظاہرہ ہے لیکن یہ دعا کی جا سکتی ہے کہ "خدا باقی سب کو محفوظ رکھے"۔