اٹارنی جنرل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ٹیم کو بغیر نام لیے نشانہ بناتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ میں ایسے دلائل دوں گا جو معاملہ کو اُس کے سیاق و سباق کے مُطابق بتائے گا کیونکہ مُجھ سے قبل جو دلائل دیے گئے وہ اصل معاملہ سے متعلق نہیں تھے۔ اٹارنی جنرل نے درخواسگزار وُکلا پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ وہ جذبات سے عاری ہو کر دلائل دیں گے تاکہ پچھلے دنوں جو جذباتی دلائل یہاں دیے گئے ویسا نہ ہو۔ اٹارنی جنرل انور منصور خان نے اپنے طنز کا آخر وار یہ کہہ کر کیا کہ میں صرف آئین اور قانون پر بات کروں گا۔
اب اٹارنی جنرل نے فُل کورٹ کے ججز کو براہِ راست مُخاطب کرتے ہوئے پوزیشن اختیار کی کہ وہ بینچ کے رُکن ججز کی مُشکلات سمجھ سکتے ہیں کیونکہ اُنہوں اپنے ایک ساتھی جج کا کیس سُننا پڑ رہا ہے۔ اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ اِس کیس میں انصاف بہت ضروری ہے کیونکہ درخواستگزار بھی اِس سُپریم کورٹ کا ایک جج ہے۔
اٹارنی جنرل نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ریفرنس کی وضاحت دینی شروع کی اور مؤقف اپنایا کہ ریفرنس میں سُپریم جوڈیشل کونسل سے پوچھا گیا تھا کہ وہ اپنے ایک ساتھی جج کے معاملات کو دیکھیں اور بتائیں کہ کیا یہ تاثر دُرست ہے یا نہیں کہ جج بیرونِ مُلک جائیدادوں کا مالک ہے؟ اور صدر کو رپورٹ دیں۔ اٹارنی جنرل نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ یہ دیکھا جانا تھا کہ جائیدادیں جج کی تھیں یا انہوں نے اِن جائیدادوں کے لئے سرمایہ فراہم کی تھی یا نہیں؟ اٹارنی جنرل نے اپنی بات دہرائی کہ یہ الزام نہیں تھا بلکہ ایک تاثر کے بارے میں پوچھا گیا تھا کیونکہ ایسے تاثر پر ایگزیکٹو تو حتمی رائے نہیں دے سکتا تھا تو اُس نے سُپریم جوڈیشل کونسل سے ہی رجوع کرنا تھا۔
اٹارنی جنرل نے وفاق کی صفائی دیتے ہوئے کہا کہ وہ عدالت کو یقین دلاتے ہیں کہ ان کی کسی سے دُشمنی نہیں، صرف کُچھ حقائق سامنے آئے تو اُس پر سُپریم جوڈیشل کونسل سے سوال پوچھا گیا۔ انور منصور خان نے آئین کے آرٹیکل پانچ، ججز کے حلف اور کنڈکٹ سے حوالے دیے اور کہا کہ کسی بھی جج کو ذاتی وابستگی، مُفاد اور خوف سے آزاد ہو کر فیصلہ کرنا چاہیے تو جسٹس سجاد علی شاہ نے ججز کی جانب سے سب سے پہلی مُداخلت کی۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے سوال پوچھا کہ آپ ہمیں کیا بتانا چاہ رہے ہیں کہ حلف کی خلاف ورزی ہوئی؟ کیا کوئی نشاندہی کریں گے تاکہ ہمیں اندازہ تو ہو آپ کِس بارے میں بات کر رہے ہیں؟ اِس موقع پر فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ آپ نے جج کے لئے بغیر خوف اور مُفاد سے بالاتر ہونے کی بات کی تو کیا اِس کا مطلب ہے کہ آپ جج کی پُختگی اور ثابت قدمی کو آزماتے رہیں گے؟
ان ریمارکس کے بعد اٹارنی جنرل نے درخواسگزاروں کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات پڑھ کر سنائے۔ اٹارنی جنرل سوالات پڑھ کر خاموش ہوئے تو جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ مِسٹر اٹارنی جنرل کیا آپ کوئی دستاویزات بھی جمع کروائیں گے یا صرف دلائل کا ہی سہارا لیں گے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ دستاویزات پہلے سے ہی ریکارڈ پر موجود ہیں اور اب وہ صرف دلائل پر توجہ دیں گے۔
اٹارنی جنرل کیپٹن (ر) انور منصور خان نے اب اپنی پوزیشن بدلتے ہوئے کہا کہ وہ کوشش کریں گے کہ اُن کے دلائل کی رفتار اچھی ہو لیکن تحمل اور خوبصورتی کے ساتھ وہ اپنی بات ججز کو بتائیں۔ اٹارنی جنرل نے اِس دوران بینچ کے رُکن ججز کی ساکھ پر کُچھ مشکوک قسم کی گفتگو کی جِس کو فل کورٹ کے ججز نے بدمزہ قرار دے کر اٹارنی جنرل کو اپنے الفاظ واپس لینے پر مجبور کر دیا اور ساتھ ہی جسٹس مقبول باقر نے صحافیوں کی طرف رخ کر کے ہدایت جاری کی کہ کیونکہ اب اٹارنی جنرل نے اپنے الفاظ واپس لے لیے ہیں اور عدالت اِن کو کارروائی سے حذف کر رہی ہے اِس لئے میڈیا اِن کو رپورٹ نہیں کرے گا۔
بطور صحافی اور عدالتی رپورٹنگ کے طالبعلم کے طور پر مُجھے معزز جسٹس مقبول باقر کی ہدایت پر تحفظات ہیں کیونکہ ایک تو انہوں نے کسی تحریری حُکمنامے کے بغیر صرف زبانی احکامات سے میڈیا کو پابند بنانے کی کوشش کی اور دوسرا پارلیمنٹ میں بھی بہت کُچھ کہا جاتا جِس کو سپیکر قومی اسمبلی کارروائی سے حذف کر دیتا ہے لیکن میڈیا پھر بھی رپورٹ کرتا ہے تو پھر کمرہِ عدالت میں سنسرشِپ کیوں لاگو کی جا رہی ہے؟ اگر ہمیں یہ حصہ بھی رپورٹ کرنے کی اجازت دی جاتی تو ہم یقیناً یہ بھی رپورٹ کرتے کہ اٹارنی جنرل کو اپنے الفاظ واپس لینے پڑے۔
بہرحال معزز جج کی ہدایت کا احترام کرتے ہوئے میں کارروائی کا یہ حصہ رپورٹ نہیں کر رہا۔ لیکن اتنا ضرور رپورٹ کروں گا کہ اٹارنی جنرل نے فُل کورٹ کو آج برہم کر دیا۔ گو کہ اپنی باتیں واپس لے لیں لیکن انہوں نے عدالت کو بہت طریقے سے ریاست کی طرف سے آنکھیں بھی دکھا دیں۔
بعد ازاں اٹارنی جنرل نے شوکت ترین کیس کے کچھ حصہ پڑھے اور مؤقف اپنایا کہ سُپریم کورٹ کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے رولز، کنڈکٹ اور آئین کی جانچ کے ساتھ جج کی قسمت کے فیصلہ کر دیں تاکہ وہ ایگزیکٹو سے خود مختار رہے۔ اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ وہ درخواستگزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے تحریری جواب سے وہ حصہ بھی پڑھ کر سنائیں گے جہاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کہتے ہیں کہ وہ قانون کے نفاذ میں ہونے والی غلطی پر جوابدہ نہیں ہیں۔ اِس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ سوال معلومات جمع کرنے کی تکنیک اور قانون کے حوالے سے ہے، آپ اُس پر جواب دیں۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وہ اُس طرف بھی آئیں گے۔
اِس دوران جسٹس یحییٰ آفریدی نے اٹارنی جنرل سے دریافت کیا کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ریفرنس پڑھ کر سُنا سکتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جسٹس یحiیٰ آفریدی کا شُکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اُنہیں دلائل میں ریفرنس پہلے پڑھنا چاہیے تھا, بہرحال اب پڑھ دیتے ہیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے بیرونِ مُلک پہلی جائیداد 2004 میں خریدی اور 2009 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس تعینات کر دیا گیا جبکہ 2011 میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی اہلیہ زرینہ کھوسو کریرا نے اپنی برطانوی پراپرٹی میں اپنی بیٹی سحر عیسیٰ کھوسو کو بھی حصہ دار بنا دیا۔
اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بیٹی سحر عیسیٰ کھوسو پاکستان کی شہریت نہیں رکھتیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے 2013 میں مزید دو جائیدادیں خریدیں اور اُن میں اپنی بیٹی سحر عیسیٰ کھوسو اور بیٹے ارسلان عیسیٰ کھوسو کو حصہ دار بنا دیا۔
بہرحال ایک بج چُکا تھا۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ججز سوال پوچھتے ہیں اور وہ کوشش کریں گے کہ عدالت کو مطمئن کر سکیں۔ فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے مُسکراتے ہوئے اٹارنی جنرل کو جواب دیا کہ وہ پریشان نہ ہوں، ہم آپ کو کھیلنے کے لئے کچھ آسان اوور بھی دیں گے۔ عدالت نے سماعت کل دِن 11 بج کر 30 منٹ تک کے لئے ملتوی کر دی۔