ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک مکالمے میں کیا جس کا اہتمام پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز نے آسٹریلیا کے ہائی کمیشن کے اشتراک سے کیا تھا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ آسٹریلیا میں جو مسلمان سب سے پہلے پہنچے وہ عرب، ترکش اور پٹھان تھے اس لئے وہاں ناموں میں خان لفظ بولا جاتا ہے۔ وہاں اونٹ ہیں، پاکستان اور آسٹریلیا کو جو چیلنج مشترکہ طور پر درپیش ہیں ان میں شدت پسندی بھی ہے، عربوں کی آسٹریلیا میں ہجرت کے بعد وہاں سلفی فکر کا فروغ ہوا ہے اور داعش ایک چیلنج کے طور پر سامنے آئی ہے۔
پروفیسر ثمینہ یاسمین نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ آسٹریلیا میں مسلمانوں کی آمد انیسویں صدی میں شروع ہوئی، شروع میں مسلمانوں کی آمد بہت کم تھی لیکن پہلے جنگ عظیم کے بعد ترکش مسلمان آئے پھر لبنان جنگ کے بعد وہاں سے مسلمان آئے جو آج سب سے بڑی تعداد میں ہیں۔ بعد ازاں زیادہ تر مہاجرین کی صورت میں آئے جن کی تعداد نوے کی دہائی میں بڑھی۔ عراقی، ایرانی اور صومالیہ سے مسلمان آئے جو آج شناخت کے بحران سے دوچار ہیں۔ 2016 کی مردم شماری کے تحت آسٹریلیا میں مسلمانوں کی تعداد 604200 ہے جو کل آبادی کا 2.6 فیصد ہیں۔ جو دنیا کے 183 ممالک سے آئے ہیں جس کی وجہ سے ان میں ثقافتی تنوع بہت زیادہ ہے۔ اسی طرح وہاں پاکستانی، ترکش، افغان، عرب اور بوسنیائی مسلمانوں کی الگ الگ مساجد ہیں، اسی طرح فکری طور پر بھی ان میں بہت تنوع ہے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے مختلف ممالک سے آنے والے مسلمان ایک دوسرے سے منسلک ہو گئے ہیں۔ نائن الیون کے بعد وہ یکجا ہو گئے اور وہ اپنے اپنے سٹڈیز سرکلز سے منسلک ہو گئے۔ آسٹریلیا میں سلفی فکر پھیل رہا ہے جو نائن الیون سے پہلے بہت کم تھا۔ آسٹریلیا میں ایک جدت پسند اسلام کے پیغام کی ضرورت ہے مگر بدقسمتی سے سلفی اسلام بھی موجود ہے جبکہ صوفی اسلام بھی موجود ہے جس کے ساتھ غیر مسلم بھی شامل ہیں۔ اسی طرح شیعہ سنی تفریق بھی موجود ہے جو پہلے نہیں تھی، پہلے شیعہ اور سنی ایک ہی مسجد میں آتے تھے لیکن اب الگ الگ مساجد بن گئی ہیں جس سے آسٹریلیا میں تفرقے کی فضا بھی بن رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آسٹریلوی مسلمان دو طرح کے ہیں ایک وہ جو خود کو آسٹریلوی سمجھتے ہیں اور دوسرے وہ جو خود کو صرف مسلمان سمجھتے ہیں آسٹریلوی نہیں۔ لیکن مسلمان خواتین میں آگے بڑھنے کا رجحان بڑھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آسٹریلیا کی حکومت مسلمانوں کو قومی معاملات میں شراکت دار بنانا چاہتی ہے اور اس کی خواہش ہے کہ مسلمان خود کو یہاں برابر کا شہری سمجھیں اور یہاں کی سماجی، معاشی اور سیاسی ترقی میں شامل ہو جائیں۔