یہ معاملہ ایک کنسرٹ کا نہیں ہے، یہ معاملہ معاشرتی گھٹن کا ہے۔ ہمیں بات کرنے کی اجازت نہیں۔ ہماری کوئی تربیت نہیں ہے، ہمیں نہ نصاب میں ادب سکھایا جاتا ہے اور نہ گھر میں۔ ہمیں بس یہ بتایا جاتا ہے کہ پیسہ کما لو تو تم کامیاب ہو۔ اچھی نوکری پکڑ لو تو تم کامیاب ہو۔ یہ تو آئے روز کا ہی معمول ہے۔ جہاں لائن لگانا پڑ جائے تو ہم یا توتعلقات ڈھونڈنے میں لگ جاتے ہیں یا پھر قطار توڑنے میں۔
سولس میں بھی لوگوں نے پہلی بد تہذیبی گیٹ پھلانگ کر کی، پھر کنسرٹ میں آرٹسٹس پر بوتلیں وغیرہ پھینکیں، کنسرٹ کا اسٹیج بھی گرا جس سے لوگوں کو چوٹ بھی پہنچی۔ پھر خواتین کے ساتھ جو ہوا، وہ ہم کتنا ہی شرمناک سمجھ لیں، حقیقت یہ ہے کہ نہ تو یہ پہلا ایسا واقعہ ہے اور نہ ہی آخری۔
تحریکِ انصاف کے جلسوں میں ایسے واقعات پیش آتے تھے تو مخالفین خوب لتے لیتے تھے، خود لیکن ان کے جلسوں میں عورتیں آنا پسند نہیں کرتیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ یہ مسئلہ کسی سیاسی جماعت کا نہیں، اس ملک کا کلچر ہے۔ یہاں خواتین کو انٹرٹینمنٹ کے حق سے محروم رکھنا ہی کسی باپ یا کسی بھائی کی پارسائی کی دلیل ہوتی ہے۔ کوئی باپ اپنی بیٹی کو بیٹے سے اتنا کمتر نہ سمجھے جتنا عمومی طور پر ہمارے یہاں باپ سمجھتے ہیں اور اسے کسی کنسرٹ وغیرہ میں جانے کی اجازت دے بھی دے تو اقبال کے شاہین اس باپ اور اس کی بیٹی کو ایسا سبق سکھاتے ہیں کہ دوبارہ ایسی جرأت نہیں کرتا۔
یہ لوگ ایک بیہوش لڑکی کو نہیں چھوڑتے، کسی کا سر پھٹ گیا، بھگدڑ میں کسی کی ٹانگ ٹوٹ گئی، کسی کا ہجوم میں اپنی بڑی بہن کا ہاتھ چھوٹ گیا۔۔۔ یہ محسوس کرنے کی بات ہے۔ نہ کریں تو کچھ ہوا ہی نہیں، کریں تو کبھی سوچیے کہ آپ کے چاروں طرف درندے آپ پر ٹوٹے پڑ رہے ہوں، آپ ان سے جان بچانے کے لئے بھاگ رہے ہوں، اور پاس اور کچھ نہ ہو بس کسی اپنے کا سہارا ہو، وہ بھی بس اتنا کہ جو میرے ساتھ ہو رہا ہے، وہی اس کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ اس ظلم کے سہنے میں ہم دونوں ساتھ ہیں۔ اور یکایک وہ اپنا بھی گم ہو جائے۔ نہ محسوس کریں تو واقعی کچھ نہیں ہوا۔
یہ اچھی بات ہے کہ اس بات پر انتظامیہ نے ایکشن لیا، ایونٹ کے آرگنائزرز کو بلیک لسٹ بھی کر دیا۔ لیکن کیا بلیک لسٹ کرنے اور ایف آئی آر کاٹنے سے مسائل حل ہو جائیں گے؟ ہمارے اندر جو شعور کی کمی ہے، جو تربیت کا فقدان ہے، کیا وہ بلیک اور وائٹ لسٹوں سے حل ہو جائے گا؟ میرا تو ذاتی خیال ہے کہ جب نہ آپ گھر میں شعور دیں گے، نہ تعلیمی اداروں میں شعور دیں گے اور نہ عملی زندگی میں تہذیب سکھائیں گے، تو یہ تو ہوگا۔