نہوں نے یہ ریمارکس محسن بیگ کی اہلیہ کی جانب سے اپنے شوہر کیخلاف مقدمات کے خاتمے کیلئے دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے کہی۔ وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے عدالت کو دھمکایا جا رہا ہے۔ اب وزیراعظم عمران خان خود اس معاملے میں شامل ہو چکے ہیں۔ چھاپے کو غیر قانونی قرار دینے والے جج کیخلاف کارروائی کرنے کا کہا جا رہا ہے۔
یہ بات سن کر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ہماری عدلیہ ایسے اقدام سے متاثر نہیں ہوتی۔ ہمارے جج کو دھمکایا نہیں جاسکتا۔ یہ جو کرنا چاہتے ہیں ان کو کرنے دیں۔
دوسری جانب اسلام آباد کی انسداد دہشتگردی عدالت نے صحافی محسن بیگ کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع دیتے ہوئے انھیں مزید 3 دن کے لئے پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔ عدالت نے پولیس کو ہدایت کی ہے کہ محسن بیگ کو اکیس فروری کو دوبارہ پیش کیا جائے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ کا درخواست گزار کے وکیل لطیف کھوسہ سے کہنا تھا کہ آپ کی درخواست کیس خارج کرنے سے متعلق ہے۔ آپ اپنی درخواست ترمیم کر کے لائیں کیونکہ یہ درخواست ملزم کے علاوہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔
سردار لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہمیں محسن بیگ سے ملنے تک کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ ان ک بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
عدالت عالیہ کا اس پر کہنا تھا کہ ہم اس معاملے پر پولیس سے رپورٹ طلب کر لیتے ہیں لیکن کسی تیسرے شخص کی درخواست پر مقدمہ خارج نہیں کیا جا سکتا ہمیں معلوم بھی نہیں کہ ملزم خود مقدمہ خارج کرنا چاہتا ہے یا نہیں۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے محسن بیگ پر تشدد کی شکایت پر آئی جی اسلام آباد سے رپورٹ طلب کرلی۔ کیس کی سماعت 21 فروری تک ملتوی کر دی گئی۔
خیال رہے کہ حکومت نے محسن بیگ کے خلاف ایف آئی اے کے چھاپے کو غیر قانونی قرار دینے والے ایڈیشنل سیشن جج کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جمعرات کو وزیراعظم عمران خان کی ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی اور اٹارنی جنرل سے ملاقات ہوئی تھی۔
ملاقات میں محسن بیگ کیس پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ اٹارنی جنرل آفس کے ایک اہلکار نے اردو نیوز کو تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ حکومت نے محسن بیگ کے گھر پر چھاپے کو غیر قانونی قرار دینے والے جج کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔