تجزیہ کاروں کی غالب اکثریت کا خیال ہے کہ یہ بیان دراصل دھمکی ہے، جو عمران خان نے اپنے "محسنوں" کو دی ہے لہذا اب تو ان کا جانا ٹھہر گیا ہے۔ اسی اثناء میں اپوزیشن نے بھی اپنی سرگرمیاں تیز کر دیں اور آخرکار پی ڈی ایم نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر عمران خان کے خلاف عدم اعتماد لانے کا اعلان کر دیا ہے۔
پیپلز پارٹی اور شہباز شریف کا عدم اعتماد کی تحریک کے روح رواں بن جانے پر تجزیہ کاروں کی اکثریت یہ یقین کر چکی ہے کہ یہ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر کیا جا رہا ہے۔
ایسا کیوں کیا جا رہا ہے اور اس معاملے کو اتنی جلد نپٹانے کی دو بڑی وجوہات بیان کی جا رہی ہیں۔ اول یہ کہ ملکی معیشت دگرگوں ہے۔ ملک قرضوں کے نیچے دبا دیا گیا ہے۔ ملک پر عملا آئی ایم ایف کی حکومت قائم ہو چکی ہے۔ عمران حکومت ہر محاذ پر ناکام و نااہل ثابت ہو چکی لہذا ملک کو بچانے کیلئے طاقتور محب وطن حلقے عمران خان کو فارغ کرنا چاہتے ہیں۔
ساٹھ اور نوے کی دہائی کی ریشہ دوانیوں کے زیر اثر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جب ایسا سوچ لیا جائے تو پھر ایسا ہو کر رہتا ہے۔ لہذا اسی یقین کے زیر اثر چند دنوں میں ہی قوم کو یہ باور کرانے کی کوشش شروع ہو چکی ہے کہ پاکستان کی جو تباہی ہوئی ہے اس کا ذمہ دار صرف عمران ہے اور ایک صفحہ پر رہنے والی باتیں نری گپ بازی تھی۔
بدقسمتی سے ایسا ہر وزیراعظم کے ساتھ ہوتا آیا ہے لیکن اس دفعہ یہ عجیب معاملہ درپیش ہے کہ عوام تنہا عمران خان کو اس تباہی کا ذمہ دار سمجھتے کو تیار نہیں بلکہ انہیں ایک مہرے سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتی۔
شہباز شریف اور بلاول سمیت کئی اور سیاسی رہنما جب عمرانی حکومت گرانے کی بات کرتے ہیں تو انہیں شدید تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ تنقید پنجاب سے زیادہ ہو رہی ہے۔
نواز شریف اور مریم نواز نے بھی جب سے عدم اعتماد کی تحریک کی حمایت کی ہے تب سے سوشل میڈیا پر ان کا کارکن اور ووٹر بھی بڑے سخت سوالات اٹھا رہا ہے۔
اپوزیشن کی اس اچانک صف بندی کی دوسری وجہ کچھ تجزیہ کار یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ ماہ وسال ہی ایسا ہوتا ہے جس میں سرگوشیوں اور سازشوں کے تانے بانے ہمیشہ کی طرح بنے جائیں گے۔
پاکستان کے تمام منتخب یا ''چنتخب'' وزرائے اعظم کو ایسے ماہ وسال کا سامنا ہر صورت کرنا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اپوزیشن یہ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر کر رہی ہے۔
اگر واقعی ایسا ہو رہا ہے تو اپوزیشن تو پھر سے کسی اور کے مفاد کیلئے استعمال ہو رہی ہے جیسا کہ ماضی قریب میں بھی ہوتا رہا ہے۔ پیپلزپارٹی کا 2018ء کے الیکشن میں تعاون یاد کریں۔ چئیرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ہو یا اس کا انتخاب، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی اضافی مدت ملازمت کا بل ہو یا الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا بل۔ حتیٰ کہ آئی ایم ایف والا منی بل۔
کہاں اپوزیشن استعمال نہیں ہوئی اور پھر ہر دفعہ دھوکا بھی کھایا ہے۔ ظاہر ہے اپوزیشن جتنا بھی ساتھ دینے اور خجل ہونے پر آمادہ ہو، وزیراعظم چاہے کتنا بھی کمزور نظر آتا ہو، مطالبات اور خواہشات بہرحال وزیراعظم نے ہی پوری کرنی ہوتی ہیں۔
عمران خان کے معاملے میں یہ امر بڑا دلچسپ ہے کہ انہیں پورا یقین ہے کہ جہاں تک میں جا سکتا ہوں یا گیا ہوں، وہاں تک تمام تر خواہش اور کوشش کے باوجود شہباز شریف یا بلاول نہیں پہنچ سکتے۔
عمران خان کو بخوبی علم ہے کہ "خطرناک ہو جاؤں گا" والی بڑھک تب تک ہی کارگر ہے جب تک اقتدار ان کے پاس ہے۔ اسی لئے تو وہ اپنے وزرا کو یہ تسلی بھی دیتے ہیں کہ کسی کا دباؤ مت لو۔ میں جانتا ہوں انہیں کیسے ڈیل کرنا ہے اور پھر یہ پیغام آگے بھی پہنچایا جاتا ہے۔
اسی طرح کے پیغامات کی برکت سے ہی عمران خان اعتماد کا ووٹ بھی لیتے ہیں۔ چیئرمین سینیٹ اور منی بل کیلئے بھی ارکان اسمبلی پورے کرنا کبھی انہوں نے اپنا درد سر نہیں سمجھا اور اپوزیشن کے دعوے کے برعکس ارکان پارلیمنٹ کو فون بھی آتے ہیں۔
اپوزیشن بھی تعاون کرتی ہے اور عمران خاں کو مستقبل میں بھی "باس" ماننے کا پیغام وزیراعظم ہاؤس پہنچتا ہے۔ نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی پر بھی عمران نے بڑی مہارت کے ساتھ بتایا کہ وزیراعظم کے پاس اسمبلی توڑنے کی دھمکی کے علاوہ بھی کچھ خصوصی اختیارات ہوتے ہیں۔
عثمان بزدار کی تبدیلی کے مطالبے کا بھی عمران خان تیاپانچہ کر چکے ہیں۔ اگر اپوزیشن مستقبل کے کسی خوف کی وجہ سےاس کھیل کا حصہ ہے تو بڑی ذلت اور خجالت اس کا انتظار کر رہی ہے کیونکہ جب یہ کھینچاتانی آگے بڑھے گی تو ہر ذی شعور کو پتا ہے کہ کسی انجانے خوف کو پیدا کرکے عمران خان معاملات کو وہاں تک لے جا سکتے ہیں، جہاں انہیں پچھلے وعدے کے مطابق اگلے انتخابات میں جیت کی گارنٹی مل جائے تو اس کے بدلے عمران خان بھی کچھ ایسا کر دیں کہ یہ فروری اور مارچ والی روایتی بھاگ دوڑ تھم جائے لیکن اگر کوئی اس طرح راضی نہ ہو تو تب بھی عمران خان بطور وزیراعظم زیادہ طاقتور ہے کیونکہ یہ ماہ وسال ہی ایسا ہے اور بقول عمران خان وہ انہیں بھی بہترین طریقے سے جان چکا ہے۔
عمران خان کو یقین ہے کہ وہ ساری ترتیب تتر بتر کر چکا ہے اور اب نفسانفسی کا یہ عالم ہے کہ کوئی کسی کیلئے کھڑا نہیں ہوگا۔ تو پھر اپوزیشن اس لینا ایک نہ دینے دو والی پوزیشن سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے۔
کیا وہ ساٹھ اور نوے کی دہائی کی طرح استعمال ہونا چاہتی ہے۔ کیا نواز شریف اور مریم نواز ووٹ کو عزت دو والے نعرے سے توبہ تائب ہو چکے ہیں۔ اگر نواز شریف اس عدم اعتماد والی تحریک سے متفق نظر آتے ہیں تو یقیناً سب کچھ اتنا سادہ نہیں جیسا ان روایتی تجزیوں سے اندازہ ہوتا ہے۔
کیا نواز شریف کو پتا نہیں کہ ان کا بھائی درجنوں بار ایسے سمجھوتوں سے دھوکا کھا چکا ہے۔ کیا نواز شریف اتنے سادہ ہیں کہ وہ انہی لوگوں پر اعتماد کریں گے جن کو وہ اپنے ان حالات کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ اب جبکہ وہ آزاد فضا میں ہیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ اپنی نااہلی اور سزا ختم کروانے بغیر کسی اور کے مفاد کیلئے استعمال ہو جائیں گے۔
یقیناً معاملات اتنے سادہ نہیں ہیں۔ اگر نواز شریف ایسے کسی عمل کا حصہ بننے پر راضی ہیں تو یہ قرین از قیاس بات ہے کہ وہ کسی بڑی طاقت یا کسی دوست ملک کی گارنٹی حاصل کر چکے ہیں۔
ہماری ملکی معیشت کا جو حشر ہو چکا ہے اور جس بین الاقوامی تنہائی کا ہم شکار ہیں تو ان حالات میں اپنے تئیں تمام طاقتور لوگ مجبور ہیں کہ وہ نئے سرے سے بین الاقوامی بساط پر اپنا کوئی رول ادا کرنے کی کوشش کریں اور جہاں سے امداد اور قرضے آتے ہیں ان کی باتوں پر کان دھریں ۔افغانستان کے حالات یہ کہتے ہیں ہمیں دوبارہ امریکہ سے اپنے تعلقات کو ٹھیک کرنا ہے اور چین و روس کے نئے بلاک کے ساتھ بھی اپنے معاملات کو درست کرنا ہے۔
ایک ہی وقت میں چین اور امریکہ کی ناراضگی ہمیں بہت مہنگی پڑی ہے جبکہ ہمیں یہ بھی پتا ہے کہ آئی ایم ایف سے ملنے والی معاشی آکسیجن بھی امریکا کی مرہون منت ہے۔
لہذا بڑی طاقتوں کو اپنے مسائل کے حل کا اختیار دینا ہمارے لئے کوئی بڑی اور نئی بات نہیں۔ تو کیا عمران خان کا حالیہ دورہ چین پرانی رنجشیں ختم کرنے کیلئے تھا۔ اگر ایسی کوشش بھی تھی تو یقیناً یہ کوشش بھی ناکام ہوئی ہے۔ نواز شریف کا اتنا پراعتماد ہو کر اس آگ کے کھیل میں کود جانا اس بات کا غمازی ہے کہ انہیں مطلوبہ اعتماد فراہم ہو چکا ہے لیکن اگر وہ آصف زرداری اور شہباز شریف پر تکیہ کئے بیٹھے ہیں تو کسی وقتی کامیابی کے باوجود یہ کمپنی بھی نہیں چل پائے گی کیونکہ ایسے کسی بندوبست کو جتنے بھی سہارے فراہم کئے جائیں، یہ آخرکار مکمل طور پر تباہ ہو کے رہتا ہے اور کسی کو بھی نیک نامی نہیں ملتی۔
جب نواز شریف اتنے سادہ نہیں ہیں تو ظاہر ہے یہ سرگرمیاں بھی اتنی سادہ نہیں ہیں۔ بین الاقوامی حالات ایک طرف رکھیں تو ملکی حالات ن لیگ کو یہ اجازت نہیں دیتے کہ وہ اپنی حکومت بنائے۔ یہ بجلی، خوردنی تیل اور پٹرول کے نرخ اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کسی مقبول سیاسی جماعت کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ کسی جوڑ توڑ والی حکومت کا حصہ بنے اور عمران خان اینڈ کپمنی کے کئے دھرے کا حصہ بن جائے۔
پھر اس دیوار پر لکھی بدنامی اور ناکامی کے بعد ملک میں بحث شروع ہو جائے گی کہ سب سیاستدان ایک جیسے ہیں اور جمہوریت ملک کیلئے زہر قاتل ہے۔ نوازشریف تمام معاملات کو خود ضرور دیکھ رہے ہوں گے، کوئی آشیرباد بھی انہیں حاصل ہوگی لیکن کیا وہ ملک کو آئین کے مطابق چلانے اور مسلط نظام میں بنیادی تبدیلیوں کی شرائط منوا چکے ہیں۔اگر ایسا نہیں تو یہ کمپنی بھی نہیں چلے گی اور سیاست کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔