آج اسی موضوع پر ایک بین الاقوامی ادارے نے میری انٹرویو بھی کی !
میری معلومات کے مطابق جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان صاحب اس بار وفاق المدارس کے صدارت کیلئے امیدوار ہیں۔
ان کی تنظیم نے اس حوالے سے بھرپور تیاری کی ہے ، اور عین ممکن ہے کہ مولانا صاحب کا انتخاب ہوجائے۔
کیونکہ ووٹ کے حساب سے ان کا ووٹ بنک کافی بھاری ہے۔
مولانا صاحب کے انتخاب پر کئی سوالات اٹھائے جارہے ہیں مجھ سے بھی مسلسل پوچھا گیا۔
مختلف دوستوں کیساتھ ڈسکشن میں متفرق آرا کو پیش کیا جس کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔
میرے خیال میں مفتی محمود مرحوم کے بعد کسی سیاسی شخصیت نے وفاق المدارس العربیہ کی سربراہی نہیں کی، عموما دیوبندی مکتبہ فکر کے شیوخ الحدیث اور مسلک میں گہری شناخت کرنیوالے صدارت کرتے رہے۔
حالیہ مثالوں میں مولانا سلیم اللہ خان مرحوم اور مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر صاحب اس کی مثالیں ہیں۔
مولانا فضل الرحمان صاحب کے انتخاب سے اثرات :
یہ سوال بہت زیادہ دہرایا گیا ہے ، میرے خیال سے اس کے مثبت اثرات بھی ہیں اور منفی اثرات بھی۔
مثبت اثرات حسب ذیل ہیں۔
1: وفاق کی صدارت ایک تجربہ کار شخص کے پاس آئیگی جو کہ زندگی بھر سیاسی میدان کے کھلاڑی رہے ہیں ،
2: ماضی کے بزرگ حکومت سے معاملات کو ڈیل کرنے میں تردد کے شکار تھے اور اپنی سیاسی جماعتوں کی پریشر کیوجہ سے بروقت فیصلے نہیں کروائے ،
3: مولانا فضل الرحمٰن میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ انٹرنیشنل کمیونٹی سے ملاقاتوں میں حرج محسوس نہیں کرتے اور مدرسے کے موقف کو بیان کرے ، جبکہ ماضی کے بزرگ چھپ کر یا ڈر ڈر کر ملتے تھے ،
4: ماضی کے بزرگوں کے مقابلے مولانا صاحب زیادہ طاقتور معلوم ہوتے ہیں اور جو بھی فیصلے کریں گے تو اس کا نفاذ بھی کرسکتے ہیں
منفی اثرات:
جن منفی اثرات کا خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے ، اس میں چند نکات حسب ذیل ہیں۔
1: اس فیصلے سے پاکستان کی ستر فیصد مدارس کی نمائندہ تنظیم سیاسی بن جائیگی،
2: دیوبندی مسلک کے دیگر دھڑوں ، اہل سنت والجماعت،سپاہ صحابہ ، جمعیت علمائے اسلام س، و نظریاتی گروپ ، اشاعت التوحید والسنہ، تھانوی گروپ سمیت کی وفاق سے وابستگی خطرے میں پڑ سکتی ہے یا کمزور ہوسکتی ہے۔
3: اس انتخاب کے فیصلے مذکورہ تنظیمیں خدشات کا اظہار کررہے ہیں جس میں دارالعلوم کراچی، جامعہ اشرفیہ لاہور، جامعہ حقانیہ (فی الحال مبہم ہے) ، جامعہ امدادیہ، پنجپیر،
جامعہ الرشید، جامعہ فاروقیہ کراچی بڑے مدارس شامل ہیں۔
4: مذہبی سیاست اور وفاق میں عہدوں کی تقسیم کا ماڈل given and take کی بنیاد پر ہے، ادھر تم ادھر ہم !
تھانوی بزرگوں نے جمعیت علمائے اسلام کا احیا کیا لیکن مدنی گروہ نے اس کو بعد میں چلایا۔ وفاق مدنی گروہ نے دیگر کیساتھ ملکر بنایا۔ مگر تھانوی گروہ کو نمائندگی دی گئی۔ ( اس میں ایک خوش آئند اقدام یہ بھی ہے کہ قاری حنیف جالندھری کو ناظم اعلی کے طور پر باقی رکھا جارہا ہے جس سے اس خلیج کو کم کیا جاسکتا ہے۔)
5: حکومت کیساتھ مذاکرات کافی حد تک کامیاب ہوچکے تھے ، معاہدے پر مفتی تقی عثمانی صاحب سمیت سب کے دستخط تھے ۔ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ بھی آن بورڈ تھی۔
مگر اس انتخاب سے یہ معاملات مزید پس منظر میں چلے جائیں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ مدارس پی ڈی ایم کی سیاست کا مرکز بن جائیں۔
مولانا صاحب اور تحریک انصاف کے درمیان فاصلوں سے یہی لگ رہا ہے اس حکومت میں کم ازکم مدارس کے حوالے سے ، ان کی رجسٹریشن اور بنک اکاونٹس سمیت کئی امور میں پیش رفت ممکن نہیں۔