'بھارتی ریاست یوپی کے انتخابات طے کریںگے کہ 2023 میں دہلی سرکار کس کی ہوگی'

01:49 PM, 18 Jan, 2022

حسنین جمیل
جب آپ واہگہ بارڈر کے راستے بھارت میں داخل ہوں تو سب سے پہلے جو خیر مقدمی بورڈ نظر آتا ہے اس پر جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے ،دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں خوش آمدید، مگر 2014 کے بعد بھارت کی ہیت میں نمایاں تبدیلی نظر آنا شروع ہو گئی ہے۔ پچھلے سات برسوں سے بھارت میں بی جے پی کی سرکار ہے، نریندر مودی بھارت کے پردھان منتری ہیں، اس سے پہلے بھی بھارت میں بی جے پی کی حکومت رہ چکی ہے جب اٹل بہاری واجپائی پردھان منتری تھے مگر تب اس قدر شدت پسندی سے حکومت نہیں کی گئی، البتہ اٹل بہاری واجپائی جو ہندی زبان کے قوی بھی تھے انکی کویتاؤں کی ہندی کتاب جس کی ایک نظم 'جنگ نہ ہونے دیں گے' بہت مشہور ہوئی تھی، اس کتاب کا اردو ترجمہ اردو کے نامور شاعر آفتاب حسین نے کیا تھا جو اٹل بہاری واجپائی کی پاکستان آمد پر انکو پیش کیا گیا تھا۔

اسکے بعد آفتاب حسین بے چارے کے ساتھ نامعلوم افراد نے جو کیا وہ سب کے سامنے ہے، ان کی سرکاری نوکری ختم ہوئی، انہیں بھارت میں سیاسی پناہ لینی پڑی اور آج کل وہ یورپ کے کسی ملک میں ہیں۔

مودی اور اب کی موجودہ بی جے پی واضح طور پر یہ سمجھتی ہے کہ دیش میں بسنے والے مسلمان اور عیسائی چونکہ طویل عرصے تک حکمرانی کرتے رہے ہیں انہوں نے ہندوستان کے اصل باشندوں (جو ہندو تھے) کو دبا کر رکھا لہذا اب ان دونوں قوموں سے بدلپ لینے کا وقت آگیا ہے۔ اب انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔

بھارت میں مذہبی بنیادوں پر فسادات پہلے بھی ہوتے تھے مگر انکو حکومتی اور ریاستی آشیر باد کبھی بھی حاصل نہ تھی مگر اب ریاست خود فریق بنتی نظر آرہی ہے، مہاتما گاندھی جی اور پنڈت جواہر لعل نہرو کا مذہبی رواداری پر یقین رکھنے والا بھارت اب ہندوتوا کا پرچارک کرتا نظر آرہا ہے، بدقستمی سے 30 جنوری 1948 کو گاندھی جی کو جس ہندو انتہا پسند نے شہید کیا تھا اب انکے قاتلوں کی سرکار بن چکی ہے۔ بی جے پی کو گانگریس سے ناراض ہونے والے سردار پٹیل کی سیاسی میراث کی علم بردار اب تمام حدوں کو عبور کر چکی ہے۔

سردار پٹیل کو گاندھی جی اور پنڈت جواہر لعل نہرو کے قد کا سیاسی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، گجرات جو مہاتما کرم چند موہن داس گاندھی اور قائد اعظم محمد علی جناح جیسے سیکولر سوچ رکھنے والوں کی جنم بھومی تھی اب سردار پٹیل اور نریندر مودی اسکی پہچان بننے کی کوشش کر رہے۔ اسکی مثال احمد آباد میں سردار پٹیل کے طویل قدر اور مجسمہ کی تعمیر ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جو کام ہم نے قیام پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد سیکولر ریاست بنانے کی بجائے مذہبی بنیادوں پر ریاست سازی کی اب وہی کام بھارت میں ہو رہا ہے۔

ہمارا پہلی بار جمہوری طریقے سے منتخب ہوئے والا وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی بھارت سے ایک ہزار سال تک جنگ کے نعرے سے اقتدار میں آیا اور اب یہی نعرے یعنی پاکستان دشمنی بی جے پی کر رہی ہے۔ جس محنت سے بھارت کے گاندھی جی، پنڈت جواہر لعل نہرو، لال بہادر شاستری، اندرا گاندھی ،راجیو گاندھی، اٹل بہاری واجپائی، ڈاکٹر من موہن سنگھ اور سونیا گاندھی نے بھارتی سیکولر سوچ کو برقرار رکھا تھا اس کو پچھلے سات برسوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ گانگریس بی جے پی کو شکست دینے کی پوزیشن میں ابھی تک نظر نہیں آرہی میرے خیال میں 2004 سے 2014 تک کانگریس کی حکومت میں ایک کمزور پردھان منتری ڈاکٹر من موہن سنگھ نے اپنی جماعت کو بہت سیاسی نقصان پہنچایا۔

جب 2009 میں کانگریس دوسری بار لوک سبھا کے الیکشن جیتی تھی تو تب راہول گاندھی یا پریانکا گاندھی میں سے کسی ایک کو پردھان منتری بنا دینا چاہیئے تھا شاید بی جے پی اس قدر مضبوط اور کانگریس اس قدر سیاسی طور پر کمزور نہ ہوتی۔

اب اس سال یوپی اتر پردیش میں ریاستی الیکشن ہونے جا رہے ہیں، یہ الیکشنز یہ طے کریں گے کہ 2023 میں دہلی سرکار کس کی ہو گی، اگر اس سال اتر پردیش میں کا موہکا منتری آدتیہ ناتھ یوگی الیکشن ہار گیا تو پھر مودی کے لیے اقتدار بچانا مشکل ہو جائے گا کیونکہ لوک سبھا کی سب سے زیادہ سیٹیں 80 اتر پردیش میں ہوتی ہیں، یہی ریاست لوک سبھا کے الیکشن کا فیصلہ کرتی ہے یوپی میں کہاوت ہے جس نے لکھنؤ جیتا اس نے دلی جیتا، دیکھیں اب کیا ہوتا ہے۔
مزیدخبریں