’گجر خواتین کی توہین‘ پر مشہور یوٹیوبر گرفتار

07:11 PM, 18 Jan, 2022

نیا دور
رواں ہفتے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ میں ایک یوٹیوبر ’لالہ خورشید‘ کو پولیس نے مقامی افراد کی شکایت پر گرفتار کیا گیا کہ انہوں نے گجر قوم کی خواتین کی ’توہین‘ کی ہے۔
گجر قوم سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد نے بالاکوٹ شہر میں جمع ہوکر پولیس سے مطالبہ کیا کہ ’ یوٹیوبر نے اپنے ایک لائیو پروگرام میں گجر خواتین کی توہین کی اور منع کرنے کے باوجود یوٹیوبر نے لسانی اور نسلی منافرت اور فسادات کرانے کی کوشش کی ہے۔‘
دوسری جانب، گZشتہ شام گرفتار ہونے والے ملزم کی آج عدالت میں پیشی ہوئی اور انہوں نے پولیس کے سامنے ایک ویڈیو میں معافی مانگتے ہوئے اپنے فعل پر شرمندہ ہونے کا اقرار کیا۔
سترہ جنوری کو درج ہونے والی ابتدائی اطلاعی رپورٹ کی تفصیلات کے مطابق، ضلع مانسہرہ کے ایک مقامی بیٹھک میں یوٹیوبر نے اپنے چند نامعلوم دوستوں کے ساتھ مل کر ایک موسیقی کے ایک لائیو پروگرام کے ذریعے گجر برادری کی مبینہ طور پر دل آزاری کی۔
ایف آئی آر میں مزید لکھوایا گیا ہے: ’پورے پاکستان میں تقریباً چار کروڑ گجر قوم آباد ہے اور پاکستان کا نام تجویز کرنے والے چوہدری رحمت علی کا تعلق بھی گجر قوم سے تھا، بلکہ آج بھی پاکستان کے مختلف شعبوں میں اس قوم کے سپوت اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ لہذا اس شخص اور اس کی پوری ٹیم کے خلاف سائبر کرائم قوانین کے تحت سوشل میڈیا کے غلط استعمال، معاشرے میں نفرت پھیلانے اور نسلی تعصب کو ہوا دے کر قومی یکجہتی اور امن وامان کامسئلہ پیدا کرنے پر سخت قانونی کارروائی کی جائے۔‘
ایس ایچ او بالاکوٹ پولیس سٹیشن گل نواز نے بتایا کہ چونکہ یہ قومیت اور امن وامان کا معاملہ تھا اور ایک بہت بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی تھی لہذا انہیں ایکشن لینا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ کیس کی تفتیش جاری ہے، جس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ خورشید کتنا قصوروار ہے۔‘
دوسری جانب پشاور ہائی کورٹ کے وکیل مطیع اللہ کا کہنا ہے کہ یہ’پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کا معاملہ ہے، جو کہ بنیادی طور پر سائبر کرائم والوں کا کام ہے لہذا قانون کے مطابق اس طرح کے کیسز میں گرفتاری کا حق پولیس کا نہیں بلکہ ایف آئی اے کا ہوتا ہے۔‘
تاہم انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ اس معاملے کو ’آزادئ اظہار‘ کے زمرے میں نہیں لایا جاسکتا، کیونکہ جہاں کہیں ایسے الفاظ استعمال ہوں جن سے کسی ایک خاص جنس یا قوم کو نشانہ بنایا جائے تو یہ غلط ہے۔ ‘کسی شخص کی آزادی اظہار کا حق وہیں ختم ہوجاتا ہے جہاں سے کسی کا ذاتی حد شروع ہوتا ہے۔‘

 
مزیدخبریں