پچھلی گرمیوں میں ہوئی تھی اس سے ملاقات۔ راولپنڈی کے مصروف بنی چوک میں واقع ایک چھوٹے سے کمرے کی آدھی بیٹھک میں جسے اس سے اپنی میوزک اکیڈمی بنایا ہوا تھا۔ اداس تھا۔ ایک کاغذ کا پرزہ مجھے دکھایا جس کے مطابق جنرل مشرف نے اسے اپنے دور اقتدار میں پانچ مرلے کا پلاٹ عطا کیا تھا۔ گزشتہ 20 سال سے ججی بابوکریسی کے سینئر کلرکوں کے ہاتھوں ذلیل ہو رہا تھا۔ پانچ مرلے کا پلاٹ تو نہ ملا مگر اس سے بھی بیش قیمت زمین کا ٹکڑا لینے میں ضرور کامیاب رہا۔۔ دو گز زمیں جو شہنشاہِ ہند بہادر شاہ ظفر ایسے فرماں روا کو کوئے یار میں نہ ملی! قبر کی آغوش میں جاتے وقت قریب 72 برس کا تھا ججی۔ کیا ڈیل ڈول۔ پہلوان انسان تھا، لمبا تڑنگا۔ ذیابیطس میں گھل کر سوکھ گیا۔
دوست اسے اعجاز نہیں، ججی کہتے تھے۔ پہلی بار اس سے تعارف 1992 میں ہوا۔ اس دور میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اسلام آباد میں ہر ہفتے موسیقی کی ایک شام کا انعقاد کیا کرتی تھی۔ شوکت مرزا صاحب طلعت محمود کی غزل گا رہے تھے اور ججی انہیں تنگ کر رہا تھا طبلے پر۔ بہت زور سے بجا رہا تھا جس سے شوکت صاحب ڈسٹرب ہو رہے تھے اور غزل کا مزہ کرکرا ہو رہا تھا۔ میری عمر اس وقت قریب 23 برس تھی۔ مجھ سے رہا نہ گیا۔ کھڑا ہو گیا۔ ججی کو ڈانٹ پلا دی اور کہا کہ سیدھا ٹھیکہ رکھے۔ بہت عظیم انسان نکلا۔ بالکل برا نہ مانا۔ فوراً سیدھا اور میٹھا ٹھیکہ لگانے لگ گیا۔ شوکت صاحب نے سٹیج پر بیٹھے بیٹھے چہرے کے تاثرات سے داد دی۔ اس کے بعد ہم تینوں گہرے دوست بن گئے اور ملنا ملانا شروع ہو گیا جو آخری وقت تک جاری رہا۔ شوکت صاحب تو پہلے ہی بزرگ تھے۔ چند برس بعد چلے گئے۔ اب ججی بھی ان کے پاس چلا گیا۔ میں اکیلا ہوں!
ججی کا پس منظر بہت منفرد۔ میرے بزرگ دوست آغا خالد زبیر بہترین کتھک ڈانسر ہیں۔ وہ پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اسلام آباد سے بطور ڈائریکٹر پرفارمنگ آرٹس ریٹائر ہوئے۔ ججی کی موت کا سن کر دکھی ہوئے۔ بولے کہ ججی کے والد محمد شریف صاحب بہترین طبلہ بجانے اور بنانے والے تھے۔ پورے راولپنڈی میں ان سے بہتر طبلہ بنانے والا اور کوئی نہ تھا۔ تو انہوں نے ججی کو طبلہ بجانا اور بنانا دونوں کام سکھائے۔ پھر شریف صاحب بنیادی طور پر سپرداری کیا کرتے تھے۔ سپر داری کا مطلب بطور سازندہ طوائفوں کے ساتھ مستقل رہنا۔ اس کام کو خاں صاحب ٹائپ لوگ کمتر سمجھتے ہیں۔
کسی زمانے میں بڑے غلام علی خان بھی ایک طوائف کے کوٹھے پر بطور سارنگی نواز سپرداری کیا کرتے تھے۔ ایک بار انہوں نے خواہش ظاہر کی نصرت فتح علی خان کے والد فتح علی خان اور تایا مبارک علی خان کے سامنے کہ وہ ان دونوں کو کھانے پر مدعو کرنا چاہتے ہیں۔ ٹکا سا جواب ملا کہ بھئی ہم ان لوگوں کی دعوت قبول نہیں کرتے جو سپرداری کرتے ہیں۔ بڑے غلام علی خاں کو یہ بات بہت بری لگی۔ بس تہیہ کر لیا کہ اب گویے بنیں گے۔ اور ایسے بنے کہ سب کی چھٹی کرا دی۔
ججی کا طبلہ زوردار یوں تھا کہ ایک تو جسم سے پہلوان تھا اور سپرداری کرتا تھا۔ رات رات بھر بغیر کسی ساؤنڈ سسٹم کے مجرے بجانا آسان نہ تھا۔ اس کام میں پیسہ اچھا تھا۔ لیکن جب ضیاء الحق نے اسلام پھیلایا تو راولپنڈی کی قصائی گلی میں واقع تمام کوٹھے بند ہو گئے اور جگہ جگہ مسجدیں بن گئیں۔ ججی کے پاس اب کوئی چارہ نہ تھا کہ گویوں، سازندوں، خان صاحبوں وغیرہ کے ساتھ سنگت کرے۔ مجرے کا طبلہ بہت زوردار اور اونچا بجایا جاتا ہے۔ جبکہ راگ راگنی اور نیم کلاسیکل یا غزل میں طبلے والے کی انگلیوں میں گداز ہونا ضروری ہے۔ بقول آغا صاحب جس کی تربیت مجرے یا رقص کے طبلے پر ہو وہ کسی بھی انگ کا طبلہ بجا سکتا ہے۔ بس تھوڑی سی ریاضت کی ضرورت ہے۔ ججی کو راگوں پر سنگت میں استاد سلامت علی خان نے تیار کیا اور گانے غزل کی سنگت پر رئیس خان (وائلن والے) نے۔ بعد میں پاکستان کے واحد سرود نواز اسد قزلباش نے ججی کے کام کو خوب نکھارا۔ ججی کا میٹھا ترین طبلہ اسد کے سرود کے ساتھ ہی ملتا ہے۔
پاکستان میں طبلے کا ایک ہی گھرانہ ہے؛ پنجاب۔ ججی بھی اسی گھرانے کا باج بجایا کرتا تھا۔ اپنے خاندان میں پانچویں پیڑھی تھا طبلے میں۔ استاد اختر شیرا اس کے گرو تھے۔ اختر صاحب اللہ دتہ بہاری پوری کے اور بہاری صاحب میاں نبی بخش کالرے والے کے شاگرد تھے۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ بہت بڑا گھرانہ تھا نام اور کام میں۔ پوری پنڈی اور سارے اسلام آباد میں بزرگوں کو چھوڑ کر دو ہی طبلیے تھے جو کلاسیکل بجا سکتے ہوں۔ ایک ججی اور دوسرا محمد اجمل۔ اور جب بزرگ بھی چلے گئے تو صرف ججی اور اجمل ہی رہ گئے۔ اجمل 18 دسمبر 2019 کو گیا۔ اب تو پنڈی میں کوئی بھی ایسا نہیں جو تلواڑہ، جھومرہ، آڑا یا بٹھا کر ایکتالہ لگا دے۔ یا پشاور سے سبز علی کو بلائیں یا لاہور سے کسی کو۔ کراچی میں بشیر خان ملیں گے۔ یہ بھی نہیں تو پھر بھارت سے درآمد کیجئے!
ججی نے بھی ہر فنکار کی طرح بہت پیسہ کمایا اور جس دن کمایا اسی دن خرچ کر دیا۔ آغا صاحب نے کیا خوبصورت بات کہی کہ فنکار آج میں جیتا ہے۔ کل کی اسے پرواہ نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے ججی کی مشکلات میں اضافہ ہوا جب ایک ایک کر کے غزل اور کلاسیکل گانے والے مر کھپ گئے۔ اب ججی شادیوں میں بجاتا جس سے بمشکل دال روٹی پوری ہوتی۔ آخری ملاقات میں بتا رہا تھا کہ برسوں ہو چلے کوئی کنسرٹ بجائے۔ رئیس کی مہربانی کہ اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔
ججی کے استاد کی خوش قسمتی کہ اسے ایک محنتی شاگرد مل گیا تو ایک نسل اور آگے بڑھ گئی۔ ججی کو نہ ملا کوئی جو محنت کر سکے۔ لہٰذا جو بھی بزرگوں کی چیزیں تھیں ججی کے ساتھ قبر میں ہی چلی گئیں۔ مجھے پچھتاوا اس بات کا کہ کئی بار اس کے بلانے کے باوجود اس سے سیکھنے نہ گیا۔ میرے ذہن میں ایک ہی بات کہ بھئی میں تو فرخ آباد والوں کا شاگرد ہوں۔ پہلے فرخ آباد باج تو سیکھ لوں۔ پھر سیکھ لوں گا پنجاب بھی۔ اب احساس ہوتا ہے کہ غلطی کی۔ اس کا دل رکھنے کے لئے ہی چلا جاتا!