اطلاعات کے مطابق آج سہ پہر تین سے چار بجے کے درمیان چند شرپسند افراد مارٹن روڈ کراچی پر واقع جماعت احمدیہ کی عبادت گاہ میں سیڑھی لگا کر داخل ہو گئے اور انہوں نے سامنے کے دو میناروں کو نقصان پہنچایا۔ واقعے کی اطلاع ملنے پر پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی تو شرپسند عناصر پولیس کو دیکھ کر وہاں سے فرار ہوگئے۔
پاکستان میں احمدیہ کمیونٹی کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے کا سلسلہ نیا نہیں ہے۔ ایک لمبے عرصے سے مختلف شہروں میں کمیونٹی کے مختلف مراکز کو نقصان پہنچایا جاتا رہا ہے۔
چند روز قبل گوجرانوالہ کے نواحی شہر وزیر آباد میں جماعت احمدیہ کی عبادت گاہ کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔
دسمبر 2022 میں گوجرانوالہ کے علاقے باغبانپورہ میں احمدی عبادت گاہ کے دو مینار مسمارکر دیے گئے تھے۔ اس واقعے پر احمدی کمیونٹی کے افراد نے الزام عائد کیا تھا کہ پولیس نے اپنی زیر نگرانی یہ کام کروایا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست بھی ان شرپسند عناصر کا ساتھ دے رہی ہے۔
اسی طرح اپریل 2022 میں مظفر گڑھ کے علاقے چوک سرور میں مشتعل ہجوم نے پولیس کی موجودگی میں احمدی عبادت گاہ کے مینار اور محراب مسمار کر دیے تھے اور پولیس تماشائی بن کر دیکھتی رہی۔
2019 میں سیالکوٹ کے چھتی بازار میں واقع احمدیہ کمیونٹی کی عبادت گاہ کو مسمار کیا گیا تھا۔ تحریک لبیک اور دیگر مذہبی تنظیموں نے مل کر عبادت گاہ کو مسمار کیا تھا۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2014 میں ایک تاریخی فیصلہ دیا تھا جس میں مذہبی عبادت گاہوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ان عبادت گاہوں کی مسماری کو سنگین جرم قرار دیا گیا تھا، مگر اس کے باوجود جماعت احمدیہ کی عبادت گاہوں کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ ریاست اور اس کے ادارے مذہبی شدت پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے جماعت احمدیہ کی عبادت گاہوں کو مسماری سے بچانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے سے قاصر ہیں۔